Thursday, January 28, 2016

نبی اکرم کی بعد از وفات زندگی اور کائنات میں تصرف

السلام علیکم 

سیوطی کا شمار اہلسنت کے جید ترین علماء میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک کتاب، تفسیر در منثور کا نام تو شاید ہی کسی نے نہ سنا ہو۔ 

اپنی کتاب الحاوی للفتاوی، ج 2، ص 317 پر وہ ایک بحث درج کرتے ہیں۔ میں وہ بحث آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ نتیجہ اخذ کرنا اپ کا اپنا کام ہے 

وَفَصَّلَ الْقَاضِي أَبُو بَكْرِ بْنُ الْعَرَبِيِّ فَقَالَ: رُؤْيَةُ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِصِفَتِهِ الْمَعْلُومَةِ إِدْرَاكٌ عَلَى الْحَقِيقَةِ، وَرُؤْيَتُهُ عَلَى غَيْرِ صِفَتِهِ إِدْرَاكٌ لِلْمِثَالِ، وَهَذَا الَّذِي قَالَهُ فِي غَايَةِ الْحُسْنِ، وَلَا يَمْتَنِعُ رُؤْيَةُ ذَاتِهِ الشَّرِيفَةِ بِجَسَدِهِ وَرُوحِهِ، وَذَلِكَ لِأَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَسَائِرَ الْأَنْبِيَاءِ أَحْيَاءٌ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ أَرْوَاحُهُمْ بَعْدَ مَا قُبِضُوا وَأُذِنَ لَهُمْ بِالْخُرُوجِ مِنْ قُبُورِهِمْ وَالتَّصَرُّفِ فِي الْمَلَكُوتِ الْعُلْوِيِّ وَالسُّفْلِيِّ، 


اور قاضی ابو بکر ابن عربی نے کہا کہ نبی اکرم کو ان کی معلوم صفات کے مطابق دیکھنا حقیقت ہے، اور ان صفات کے ساتھ دیکھنا جو کہ غیر معلوم ہیں، وہ مثالی طور پر ہیں۔ اس بات میں کوئی ممانعت نہیں کہ ان کی رویت ان کی جسم اور روح سمیت ہو، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اور سارے انبیاء زندہ ہیں، اور ان کی روح ان کو پلٹا دی جاتی ہے وفات کے بعد۔ اور ان کو اجازت ہے کہ وہ اپنے قبر میں سے نکلیں اور آسمانوں اور زمینوں کے ملکوت میں تصرف کریں

وَقَدْ أَلَّفَ الْبَيْهَقِيُّ جُزْءًا فِي حَيَاةِ الْأَنْبِيَاءِ، وَقَالَ فِي دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ: الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ كَالشُّهَدَاءِ؛ وَقَالَ فِي كِتَابِ الِاعْتِقَادِ: الْأَنْبِيَاءُ بَعْدَ مَا قُبَضُوا رُدَّتْ إِلَيْهِمْ أَرْوَاحُهُمْ فَهُمْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ كَالشُّهَدَاءِ،

اور بیہقی نے انبیاء کے حیات کے بارے میں ایک جزو لکھا، اور دلائل النبوہ میں کہا کہ انبیاء زندہ ہیں شہیدوں کی مانند۔ اور کتاب الاعتقاد میں کہا کہ مرنے کے بعد انبیاء کے روح واپس کر دی جاتی ہے، وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس شہیدوں کی مانند

 وَقَالَ الْأُسْتَاذُ أَبُو مَنْصُورٍ عَبْدُ الْقَاهِرِ بْنُ طَاهِرٍ الْبَغْدَادِيُّ: قَالَ الْمُتَكَلِّمُونَ الْمُحَقِّقُونَ مِنْ أَصْحَابِنَا أَنَّ نَبِيَّنَا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَيٌّ بَعْدَ وَفَاتِهِ وَأَنَّهُ يُبَشَّرُ بِطَاعَاتِ أُمَّتِهِ وَيَحْزَنُ بِمَعَاصِي الْعُصَاةِ مِنْهُمْ، وَأَنَّهُ تَبْلُغُهُ صَلَاةُ مَنْ يُصَلِّي عَلَيْهِ مِنْ أُمَّتِهِ، وَقَالَ: إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَا يَبْلُونَ وَلَا تَأْكُلُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ شَيْئًا، وَقَدْ مَاتَ مُوسَى فِي زَمَانِهِ فَأَخْبَرَ نَبِيُّنَا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ رَآهُ فِي قَبْرِهِ مُصَلِّيًا، وَذَكَرَ فِي حَدِيثِ الْمِعْرَاجِ أَنَّهُ رَآهُ فِي السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ وَرَأَى آدَمَ وَإِبْرَاهِيمَ، وَإِذَا صَحَّ لَنَا هَذَا الْأَصْلُ قُلْنَا: نَبِيُّنَا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَدْ صَارَ حَيًّا بَعْدَ وَفَاتِهِ وَهُوَ عَلَى نُبُوَّتِهِ. انْتَهَى،

اور استاد عبدالقاہر نے کہا کہ ہمارے محققین نے کہا کہ نبی اکرم وفات کے بعد زندہ ہیں، اور انہیں امت کی اطاعت کرنے پر بشارت دی جاتی ہے۔ اور گناہ پر وہ اداس ہوتے ہیں۔ اور جب امت کی جانب سے درود و سلام پڑھا جائے، وہ ان تک پہنچتا ٓ ہے اور استاد نے کہا کہ انبیاء کے جسم خراب نہیں ہوتے اور نہ ہی زمین اس میں سے کچھ کھاتی ہے۔ موسی علیہ السلام اپنے زمانے میں مر گئے، مگر نبی پاک نے انہیں قبر میں نماز پڑھتے دیکھا۔ اور معراج کی حدیث میں انہوں نے چوتھے آسمان میں آدم و ابراہیم کو دیکھا، اور ہمارے لیے یہ صحیح ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی چلتے پھرتے ہیں، زندہ ہیں اپنی وفات کے بعد اور وہ اپنی نبوت پر ہیں

، وَقَالَ القرطبي فِي التَّذْكِرَةِ فِي حَدِيثِ الصَّعْقَةِ نَقْلًا عَنْ شَيْخِهِ: الْمَوْتُ لَيْسَ بِعَدَمٍ مَحْضٍ، وَإِنَّمَا هُوَ انْتِقَالٌ مِنْ حَالٍ إِلَى حَالٍ، وَيَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ أَنَّ الشُّهَدَاءَ بَعْدَ قَتْلِهِمْ وَمَوْتِهِمْ أَحْيَاءٌ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ مُسْتَبْشِرِينَ، وَهَذِهِ صِفَةُ الْأَحْيَاءِ فِي الدُّنْيَا، وَإِذَا كَانَ هَذَا فِي الشُّهَدَاءِ فَالْأَنْبِيَاءُ أَحَقُّ بِذَلِكَ وَأَوْلَى، وَقَدْ صَحَّ أَنَّ الْأَرْضَ لَا تَأْكُلُ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - اجْتَمَعَ بِالْأَنْبِيَاءِ لَيْلَةَ الْإِسْرَاءِ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَفِي السَّمَاءِ وَرَأَى مُوسَى قَائِمًا يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ، وَأَخْبَرَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ يَرُدُّ السَّلَامَ عَلَى كُلِّ مَنْ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا يَحْصُلُ مِنْ جُمْلَتِهِ الْقَطْعُ بِأَنَّ مَوْتَ الْأَنْبِيَاءِ إِنَّمَا هُوَ رَاجِعٌ إِلَى أَنْ غُيِّبُوا عَنَّا بِحَيْثُ لَا نُدْرِكُهُمْ وَإِنْ كَانُوا مَوْجُودِينَ أَحْيَاءً، وَذَلِكَ كَالْحَالِ فِي الْمَلَائِكَةِ فَإِنَّهُمْ مَوْجُودِينَ أَحْيَاءً وَلَا يَرَاهُمْ أَحَدٌ مِنْ نَوْعِنَا إِلَّا مَنْ خَصَّهُ اللَّهُ تَعَالَى بِكَرَامَتِهِ. انْتَهَى.

اور قرطبی نے التذکرہ میں حدیث صعقہ میں اپنے شیوخ سے درج کیا کہ موت یہ نہیں کہ ختم ہو گئے، بلکہ یہ آپ منتقل ہوتے ہیں ایک حال سے دوسرے میں۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ شہدا اپنے قتل کے بعد زندہ ہیں، اور وہ رزق پاتے ہیں، خوش ہیں، بشارت ہیں ان کے لیے۔ اور یہ صفات ہیں اس دنیا کی زندگی کی۔ جب یہ شہدا کے لیے ہے، تو انبیاء اس سے زیادہ حقدار ہیں۔ اور یہ صحیح ہے کہ زمین انبیاء کے جسم کو نہیں کھاتی اور آپ نے انبیاء کا اجتماع لیلۃ الاسرا میں دیکھا بیت المقدس میں اور آسمانوں میں۔ اور موسی علیہ السلام کو دیکھا کو قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اور آپ نے ہمیں خبر دی کہ آپ اس سلام کا جواب دیتے ہیں جو آپ کو کی جائے۔ اس سے قطعی طور پر یہ حاصل ہوا کہ انبیاء کی موت میں وہ چلے جاتے ہیں غیبت میں اس حیثیت سے کہ ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے، مگر وہ موجود ہوتے ہیں۔ زندہ حال میں۔ یہ فرشتوں جیسی حالت ہے کہ وہ موجود ہیں، زندہ ہیں، مگر ہماری نوع میں کوئی انہیں دیکھ نہیں سکتا سوائے اس کہ جسے اللہ کرامت سے مخصؤص کرے 

وَأَخْرَجَ أبو يعلى فِي مُسْنَدِهِ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ حَيَاةِ الْأَنْبِيَاءِ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: ( «الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ» ) وَأَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: ( «إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَا يُتْرَكُونَ فِي قُبُورِهِمْ بَعْدَ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَلَكِنَّهُمْ يُصَلُّونَ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ تَعَالَى حَتَّى يُنْفَخَ فِي الصُّورِ» ) وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ فِي الْجَامِعِ قَالَ: قَالَ شَيْخٌ لَنَا عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ قَالَ: مَا مَكَثَ نَبِيٌّ فِي قَبْرِهِ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً حَتَّى يُرْفَعَ. 

ابو یعلی نے مسند میں، اور بیہقی نے حیاۃ الانبیاء میں انس سے روایت لی کہ نبی پاک نے کہا کہ انبیاء اپنی قبر میں زندہ ہیں، اور نماز پڑھ رہے ہیں۔ 
اور بیہقی نے انس کے حوالے سے لکھا کہ نبی پاک نے کہا کہ انبیاء اپنی قبر میں چالیس راتوں سے زیادہ نہیں رہتے بلکہ اپنے رب کے پاس نماز پڑھتے ہیں یہاں تک کہ صور پھونکا جائے
اور سفیان ثوری نے اپنے شیخ کے حوالے سے، سعید بن مسیب سے روایت کی کہ نبی کو قبر میں چالیس راتوں سے زیادہ نہیں چھوڑا جاتا حتی کہ اٹھا لیا جاتا ہے 

، وَرَوَى عبد الرزاق فِي مُصَنَّفِهِ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ أبي المقدام عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ قَالَ: مَا مَكَثَ نَبِيٌّ فِي الْأَرْضِ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، وأبو المقدام هُوَ ثابت بن هرمز [الكوفي] شَيْخٌ صَالِحٌ.
وَأَخْرَجَ ابْنُ حِبَّانَ فِي تَارِيخِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ، وأبو نعيم فِي الْحِلْيَةِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ( «مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمُوتُ فَيُقِيمُ فِي قَبْرِهِ إِلَّا أَرْبَعِينَ صَبَاحًا» ) وَقَالَ إمام الحرمين فِي النِّهَايَةِ ثُمَّ الرافعي فِي الشَّرْحِ: رُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: ( «أَنَا أَكْرَمُ عَلَى رَبِّي مِنْ أَنْ يَتْرُكَنِي فِي قَبْرِي بَعْدَ ثَلَاثٍ» ) زَادَ إمام الحرمين: وَرُوِيَ: أَكْثَرَ مِنْ يَوْمَيْنِ،

اور عبدالرزاق نے مصنف میں ثوری سے، انہوں نے ابی مقدام سے انہوں نے سعید سے نقل کیا کہ نبی کو زمین میں 40 دن سے زیادہ نہیں رکھا جاتا۔ اور ابو مقدام ثابت بن ہرمز ہیں جو کہ ںیک اور شیخ ہیں
اور ابن حبان نے اپنی تاریخ میں، طبرانی نے اپنے معجم الکبیر میں، اور ابو نعیم نے حلیہ میں انس کے حوالے سے لکھا کہ نبی پاک نے کہا کہ نبیوں میں کوئی نہیں کہ جو 40 روز سے زیادہ قبر میں گذارے۔ اور امام حرمین نے نہایہ میں اور پھر رافعی نے شرح میں لکھا کہ نبی پاک سے روایت کی گئی کہ انہوں نے کہا کہ مجھے اللہ نے عزت دی کہ مجھے قبر 3 دن سے زیادہ نہیں رکھا جائے۔ اور امام حرمین نے اس میں اضافہ کیا کہ دو دن سے زیادہ 

اس کے بعد سیوطی نے اور مثالیں دیں۔ مزید طوالت سے بچنے کے لیے ہم ان کا اخذ کردہ نتیجہ پیش کرتے ہیں۔ وہ اسی کتاب کے صفحہ 319 پر کہتے ہیں

فَحَصَلَ مِنْ مَجْمُوعِ هَذِهِ النُّقُولِ وَالْأَحَادِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَيٌّ بِجَسَدِهِ وَرُوحِهِ، وَأَنَّهُ يَتَصَرَّفُ وَيَسِيرُ حَيْثُ شَاءَ فِي أَقْطَارِ الْأَرْضِ وَفِي الْمَلَكُوتِ وَهُوَ بِهَيْئَتِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا قَبْلَ وَفَاتِهِ لَمْ يَتَبَدَّلْ مِنْهُ شَيْءٌ، وَأَنَّهُ مُغَيَّبٌ عَنِ الْأَبْصَارِ كَمَا غُيِّبَتِ الْمَلَائِكَةُ مَعَ كَوْنِهِمْ أَحْيَاءً بِأَجْسَادِهِمْ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ رَفْعَ الْحِجَابِ عَمَّنْ أَرَادَ إِكْرَامَهُ بِرُؤْيَتِهِ رَآهُ عَلَى هَيْئَتِهِ الَّتِي هُوَ عَلَيْهَا، لَا مَانِعَ مِنْ ذَلِكَ، وَلَا دَاعِيَ إِلَى التَّخْصِيصِ بِرُؤْيَةِ الْمِثَالِ.

ان سب اقوال و احادیث کے مجموعے سے یہ حاصل ہوا کہ نبی پاک اپنے جسم و روح سمیت زندہ ہیں۔ اور وہ زمین و آسمان میں تصرف کرتے ہیں، چلتے ہیں اور وہ اسی صورت میں ہیں کہ جس میں وہ موت سے پہلے تھے۔ ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ وہ آنکھوں سے اوجھل ہیں جیسا کہ فرشتے غائب ہیں جبکہ وہ اپنے جسموں سمیت زندہ ہیں۔ جب اللہ کسی کو عزت دینا چاہے تو وہ حجاب کو اٹھا دیتا ہے، پھر وہ ان کو ان کی ہیت میں دیکھتا ہے۔ اس میں کوئی ممانعت نہیں۔ اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں کہ انہیں مثالی صورت میں مخصوص کیا جائے 


No comments:

Post a Comment