Tuesday, January 19, 2016

کیا اہل تشیع کے نزدیک مچھر سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں؟

السلام علیکم

نواصب کی جانب سے ایک روایت کو لے کر اہل تشیع پر اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ اہل تشیع کے نزدیک مچھر سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں 

سب سے پہلے ہم اس آیت کو پیش کرتے ہیں۔ پھر اس سے متعلق جو روایت آتی ہے، وہ پیش کریں گے۔ اور اس کے بعد اس پر بحث کریں گے

سورہ بقرہ کی ایت یہ ہے 

26. ۞ إِنَّ اللہ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللہ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ


جالندھری نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے 

الله اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز (مثلاً مکھی مکڑی وغیرہ) کی مثال بیان فرمائے۔ جو مومن ہیں، وہ یقین کرتے ہیں وہ ان کے پروردگار کی طرف سے سچ ہے اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال سے خدا کی مراد ہی کیا ہے۔ اس سے (خدا) بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہے اور گمراہ بھی کرتا تو نافرمانوں ہی کو

اب آتے ہیں تفسیر قمی، ج 1، ص 35، میں موجود روایت کی طرف

وحدثني أبي عن النضر بن سويد عن القسم بن سليمان عن المعلى بن خنيس عن أبي عبد الله عليه السلام إن هذا المثل ضربه الله لأمير المؤمنين عليه السلام فالبعوضة أمير المؤمنين عليه السلام وما فوقها رسول الله صلى الله عليه وآله والدليل على ذلك قوله " فاما الذين آمنوا فيعلمون انه الحق من ربهم " يعنى أمير المؤمنين كما اخذ رسول الله صلى الله عليه وآله الميثاق عليهم له " واما الذين كفروا فيقولون ماذا أراد الله بهذا مثلا يضل به كثيرا ويهدي به كثيرا " فرد الله عليهم فقال " وما يضل به الا الفاسقين الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه - في علي - ويقطعون ما امر الله به ان يوصل " يعني من صلة أمير المؤمنين ( ع ) والأئمة عليهم السلام " ويفسدون في الأرض أولئك هم الخاسرون " 

امام جعفر الصادق سے روایت کی گئی کہ اس آیت میں اللہ نے امیر المومنین کے لیے مثال قائم کی، مچھر یہاں پر امیر المومنین ہیں اور جو اس سے بلند ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔
 اور اس کی دلیل ہے اللہ کا یہ قول کہ (کہ جو ایمان لایا وہ علم رکھتے ہیں کہ حق اللہ کی جانب سے ہے) یعنی امیر المومنین جیسا کہ نبی پاک نے ان کے لیے میثاق
لیا (اور جنہوں نے کفر کیا، وہ کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کا کیا ارادہ ہے، اللہ نے کئی کو اس سے گمراہ کیا، اور کئی کو ہدایت دی) تو اللہ نے ان کو جواب دیا کہ اللہ نے گمراہ نہیں کیا مگر ان کو جو فاسقین ہیں، اور جنہوں نے اللہ کا مولا علی کے بارے میں عہد ماننے کے بعد توڑ دیا، اور اللہ کا امر ملنے کے بعد چھوڑ دیا، یعنی امیر المومنین اور ائمہ علیہ السلام کے بارے میں۔ اور زمین میں فساد برپا کی، وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں


 سند کی کمزوری سے قطع نظر، ایک بات تو واضح ہے کہ یہاں پر مچھر سے ایک مثال قائم کی جا رہی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ایک روایت آتی ہے 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللہ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ، وَيَقُولُونَ هَلاَّ وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ ‏"‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن دینار نے ، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی ۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں ۔

اب کوئی یہ کہہ دے کہ نبی اکرم تو اینٹ تھے کیونکہ وہ خود کو اینٹ کہہ رہے ہیں، تو ایسے شخص کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے
کیونکہ یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ ایک مثال قائم کر رہے ہیں
نہ کہ اس سے مراد ہی یہ لے لی جائے کہ وہ اینٹ تھے

سند کی جانب آتے ہیں

اس روایت کی سند میں تو بنیادی مسائل ہیں

پہلا تو یہ کہ سند میں انقطاع ہے 
سند یوں ہے 

وحدثني أبي عن النضر بن سويد 

اب ابراہیم بن ہاشم قمی امام محمد تقی کے زمانے میں تھے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کے زمانے سے بھی تعلق رہا

جبکہ نضر بن سوید امام موسی کاظم علیہ السلام کے زمانے کے ہیں

اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ابراہیم بن ہاشم نے ںضر بن سوید سے ایک اور راوی کے واسطے سے روایات نقل کی ہیں

ثبوت کے طور تفسیر قمی، ج 1، ص 28 پر یہ سند ملاحظہ ہو 

قال وحدثني أبي عن محمد بن أبي عمير عن النضر ابن سويد عن أبي بصير عن أبي عبد الله عليه السلام

اب یہاں پر ابراہیم بن ہاشم ابن ابی عمیر سے روایت لے رہے ہیں، جو کہ امام رضا اور امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایات لیتے تھے ، اور وہ نضر بن سوید سے روایت لے رہے ہیں 

یہ ایک مثال کے طور پر بیان کیا ہم نے

اسی وجہ سے جب مجتہد، آغہ حافظ بشیر حسین نجفی سے دریافت کیا گیا 

هل يوجد انقطاع بين الشيخ الجليل إبراهيم بن هاشم وبين النضر بن سويد ؟

کیا ابراہیم بن ہاشم اور نضر بن سوید کے درمیان انقطاع ہے؟

انہوں نے جواب دیا 

 بسمه سبحانه لم يثبت اتحاد الطبقة بين الرجلين وهو شرط في ثبوت رواية أحدهما عن الآخر والله العالم

ان دونوں راویان کے طبقات میں اتحاد ثابت نہیں، اور یہ ایک شرط ہے کہ وہ ایک دوسرے سے روایت کر سکیں

فتوی کا عکس آخر میں ملاحظہ کریں

اس کے علاوہ اس روایت میں دوسرا نقص یہ ہے کہ اس کے ایک راوی ہیں قاسم بن سلیمان کے نام سے اور ان کی وثاقت کے بارے میں کوئی قطعی نص نہیں ملتی 

اور اس وجہ سے کئی علماء نے انہیں مجہول لکھا ہے

چند مثالیں پیش خدمت ہے 

 شیخ محمد بن حسن صاحب الجواہر اپنی کتاب، جواہر الکلام، کے ج 8، ص 130 پر انہیں مجہول کہتے ہیں 

اسی طرح محقق اردبیلی اپنی کتاب جامع الرواۃ کے جلد 2، صفحہ 510 اور 532 پر انہیں ضعیف اور مہمل قرار دیتے ہیں

فاضل ہندی اپنی کتاب کشف اللثام، ج 1، ص 187 پر انہیں مجہول قرار دیتے ہیں

شیخ احمد اردبیلی اپنی کتاب مجمع الفائدۃ، ج 2، ص 86 پر انہیں مجہول قرار دیتے ہیں 

شیخ بہائی اپنی کتاب حبل المتین، ص 184 پر انہیں مہمل اور غیر ثقہ قرار دیتے ہیں

 محقق باقر سبزواری اپنی کتاب کفایۃ الفقہ المعروف الکفایۃ الحکام، ج 2ص 710 پر انہیں غیر ثقہ کہتے ہیں

سید کاظم حائری اپنی کتاب القضا فی فقہ الاسلامی ص 706 پر کہتے ہیں کہ ان کی وثاقت ثابت نہیں

آغہ منتظری اپنی کتاب دراسات فی المکاتب المحرمہ ج 2، ص 562 پر کہتے ہیں کہ ان کی وثاقت ثابت نہیں

سید محمد علی ابطحی اپنی کتاب تہذیب المقال فی تنقیح کتاب الرجال نجاشی، ج 5، ص 126 پر درج کرتے ہیں کہ ان کی مدح یا وثاقت نہیں ملتی 

اسی طرح علی اکبر غفاری من لا یحضرۃ الفقیہ، ج 4، ص 437 کے حاشیے میں انہیں مہمل کہتے ہیں

اسی طرح شیخ عبدالنبی کاظمی نے اپنی کتاب تکملۃ الرجال، ج 2ص 277 پر ان کی سند کو غیر صحیح کہا ہے اور ان کو مہمل غیر ثقہ درج کیا ہے

اسی طرح سید علی حسینی میلانی نے آغہ محمد رضا گلپائیگانی کی کتاب القضا کی تحقیق کی۔ اور اس کے ج 1، ص 449 کے حاشیے میں لکھا کہ ان کی وثاقت ثابت نہیں 

ہم نے کئی علماء کا قول آپ کی خدمت میں پیش کیا

آغہ جمیل حمود عاملی سے جب اس روایت کی سند کے بارے میں سوال ہوا، تو انہوں نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا

ما صحة الرواية التي تذكر أن المقصود من الآية ( بعوضة فما فوقها ) هو أمير المؤمنين عليه السلام ؟

الجواب:      الرواية ضعيفة سنداً


اس پوسٹ کے لیے ہم برادر اسد اللہ غالب کے شکر گزار ہیں۔ ان کی تحقیق سے ہم نے کافی استفادہ کیا۔ اللہ تعالی انہیں اہلبیت کی مزید خدمت کرنے کی توفیق دے 


No comments:

Post a Comment