Thursday, May 19, 2016

مومن بھائی کی مدد و نصرت کے بارے میں ائمہ اہلبیت کی تاکید

السلام علیکم 

آج کل فتنے کا زمانہ ہے، اور اس صورتحال میں مومنین خاص طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔ کئی جگہوں پر مومنین کے ہاں  شہادتیں ہو چکی ہیں اور ان کے ورثا بے یار و مددگار ہیں

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ کچھ اقوال ائمہ اہلبیت کے، اس بابت میں بیان کیے جائیں، تا کہ مومنین کو اندازہ ہو سکے کہ اس ضمن میں کتنی تاکید کی گئی ہے۔ یاد رکھیے گا کہ ائمہ نے صرف اس کا ثواب ہی نہیں بتایا بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو کیا سزا ملے گی۔ 

ایک روایت ثواب الاعمال از شیخ صدوق، بتحقیق علامہ احمد ماحوذی، ص 408 ہدیہ کرتے ہیں 

أبي (ره) قال حدثني سعد بن عبد الله عن أحمد بن أبي عبد الله عن أبيه عن حماد بن عيسى عن إبراهيم بن عمر اليماني عن أبي عبد الله عليه السلام قال: ما من مؤمن يعين مؤمنا مظلوما إلا كان أفضل من صيام شهر واعتكافه في المسجد الحرام، وما من مؤمن ينصر أخاه وهو يقدر على نصرته إلا ونصره الله في الدنيا والآخرة، وما من مؤمن يخذل أخاه وهو يقدر على نصرته إلا خذله الله في الدنيا والآخرة.  


امام جعفر الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کوئی مومن جب کسی مظلوم مومن کی مدد کرتا ہے تو یہ افضل ہے ایک مہینہ روزے رکھنے اور ایک مہینہ مسجد حرام میں اعتکاف کرنے سے؛ اور جب کوئی مومن اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے جب وہ اس پر قدرت رکھتا ہے، تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کی مدد کرتا ہے۔ مگر جب کوئی مومن اپنے بھائی سے کنارہ کشی کرتا ہے جب کہ وہ قدرت رکھتا ہو، تو اللہ دنیا و آخرت میں اس سے کنارہ کشی کرتا ہے 

علامہ ماحوذی نے سند کو صحیح قرار دیا اور راویان کو جید و ثقہ کہا 

الفاظ بالکل واضح ہیں کہ اگر آپ مدد نہیں کریں گے، تو اللہ آپ کی مدد نہیں کرے گا

اسی طرح ایک اور روایت پیش خدمت ہے 

حدثني محمد بن موسى بن المتوكل قال حدثني عبد الله بن جعفر الحميري عن محمد بن الحسين بن أبي الخطاب عن الحسن بن محبوب عن علي بن رئاب عن أبي الورد عن أبي جعفر عليه السلام قال: من اغتيب عنده أخوه المؤمن فنصره وأعانه نصره الله في الدنيا والآخرة ومن اغتيب عنده أخوه المؤمن فلم ينصره ولم يعنه ولم يدفع عنه وهو يقدر على نصرته وعونه إلا خفضه الله في الدنيا والآخرة.  

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مومن کسی برادر مومن کے پاس پناہ لے لے، اور وہ اس کی مدد و نصرت کرے تو اللہ اس کی اس دنیا و آخرت میں مدد کرے گا۔ اور اگر کوئی مومن کسی بھائی کے پاس پناہ لے لے، اور وہ مدد و معاونت نہ کرے، اور دفاع نہ کرے جبکہ وہ قدرت رکھتا ہو، تو اللہ اسے دنیا و آخرت میں ذلیل کر دے گا

علامہ ماحوذی نے صفحہ 409 پر اس روایت کو حسن مگر صحیح کی مانند قرار دیا

الفاظ کی سختی تو مد نظر رکھیے گا 

ایک اور روایت ملاحظہ ہو 

حدثني محمد بن موسى بن المتوكل قال حدثني علي بن الحسين السعد آبادي عن أحمد بن محمد عن الحسن بن محبوب عن زيد الشحام قال سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: من أغاث أخاه المؤمن اللهفان عند جهده فنفس كربته وأعانه على نجاح حاجته كانت له بذلك عند الله اثنان وسبعون رحمة من الله يعجل له منها واحدة تصلح بها معيشته ويدخر له أحدا وسبعين رحمة لافزاع يوم القيامة وأهوالها. 

امام الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب کوئی اپنے مومن بھائی کی مدد کرے، اور اسے تسلی دے، اور اس کی حاجت روائی کرے، تو اللہ اسے 72 رحمتوں سے نوازے گا، جس میں ایک اسے جلدی ملے گی کہ جس سے اس کے مالی حالات بہتر ہو جائیں گے، اور 71 اسے قیامت کے دن ملیں گے کہ جس سے وہ اس دن پریشانیوں سے محفوظ رہے گا

علامہ ماحوذی نے اس سند کو بھی ص 412 پر حسن مگر صحیح کی مانند قرار دیا

اس روایت میں غور کریں کہ اگر آپ اس وجہ سے گھبرا رہے ہیں کہ آپ کے مالی حالات شاید اجازت نہ دیں، تو امام علیہ السلام نے کہہ دیا کہ اس عمل کے نتیجے میں آپ کے حالات بہتر ہوں گے

ایک اور روایت ملاحظہ ہو 

أبي (ره) قال حدثنا علي بن إبراهيم عن أبيه عن محمد بن أبي عمير عن الحسن بن نعيم عن مسمع كردين قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: من نفس عن مؤمن كربة نفس الله عنه كرب الآخرة وخرج من قبره وهو ثلج الفؤاد، ومن أطعمه من جوع أطعمه الله ثمار الجنة، ومن سقاه شربة ماء سقاه الله من الرحيق المختوم. 

امام الصادق فرماتے ہیں کہ جو کسی مومن کو کرب سے نکالے گا، اللہ اسے قیامت والے دن کرب سے نکالے گا، اور وہ قبر سے یوں نکلے گا کہ خوش ہو گا۔ اور جو کسی بھوکے کا کھانا کھلائے گا، اللہ اسے جنت کے پھل کھلائے گا، اور جو کسی کو پانی پلائے گا، اللہ اسے شراب طہور پلائے گا

علامہ ماحوذی نے اس سند کو بھی صحیح قرار دیا 

اسی طرح ایک اور ہدیہ لیجیے 

حدثني محمد بن موسى بن المتوكل قال حدثني علي بن الحسين السعد إبادي عن أحمد بن أبي عبد الله البرقي عن الحسن بن علي عن بأبي ؟ ؟ حمزة قال: قال أبو عبد الله عليه السلام من سر امرؤا مؤمنا سره الله يوم القيامة وقيل له تمن على ربك ما أحببت فقد كنت تحب أن تسر أولياءه في دار الدنيا فيعطي ما تمنى ويزيده الله من عنده ما لم يخطر على قلبه من نعيم الجنة. 

امام الصادق کہتے ہیں کہ جب کوئی کسی مومن کو خوش کرے، اللہ اسے قیامت والے دن خوش کرے گا۔ اور اس سے کہا جائے گا کہ تم نے اپنے رب کو خوش کیا، تم نے پسند کیا کہ تم اللہ کے دوستوں کو دنیا میں خوش کرو، پس اسے وہ دے دیا جائے گا جس کی وہ تمنا کرتا ہے، اور اللہ اس میں اضافہ کرے گا، اس قدر کہ وہ بھی دیا جائے گا جو اس کے دل میں بھی نہیں ہو گا

علامہ ماحوذی نے سند کو معتبر اور حسن کہا 

اس موضوع پر بے تحاشہ روایات موجود ہیں۔ ہم ایک آخری ہدیہ پیش کرتے ہیں

حدثني محمد بن موسى بن المتوكل قال حدثني عبد الله بن جعفر الحميري عن محمد بن الحسين بن أبي الخطاب عن الحسن بن محبوب عن سدير الصيرفي في حديث له طويل قال: قال أبو عبد الله عليه السلام إذا بعث المؤمن من قبره خرج معه مثال من قبره يقدمه أمامه وكلما رأى المؤمن هولا من أهوال يوم القيامة قال له المثال لا تحزن ولا تفزع وابشر بالسرور والكرامة من الله فلا يزال يبشره بالسرور والكرامة من الله حتى يقف بين يدي الله جل جلاله فيحاسبه حسابا يسيرا ويأمر به إلى الجنة والمثال أمامه فيقول له المؤمن رحمك الله نعم الخارج كنت معي من قبري وما زلت تبشرني بالسرور والكرامة حتى رأيت ذلك فمن أنت ؟ قال: فيقول أنا السرور الذي كنت أدخلته على أخيك المؤمن خلقني الله منه لا بشرك
.
امام الصادق سے ایک روایت ملتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب ایک مومن کو قبر سے نکالا جائے گا، تو اس کے ساتھ ایک مخلوق ہو گی جو اس کے آگے چلے گی۔ اور جب مومن کسی پریشانی کو دیکھے گا، وہ اس سے کہے گی کہ پریشان نہ ہو، بلکہ خوش ہو۔ تمہارے لیے اللہ کی جانب سے کرامت ہے۔ اور یہ بشارتیں اس کے لیے رہیں گی حتی کہ اللہ کے پاس حاضر ہو گا اور اس کا آسان حساب ہو گا، اور اس کے بعد اسے جنت جانے کا حکم ہو گا، اور وہ تمثیلی مخلوق اس کے آگے ہو گی،
مومن اس سے کہے گا: اللہ تجھ پر رحم کرے، میں قبر سے نکلا تو تم میرے ساتھ ہو، اور مجھے خوشی و عزت کی بشارت دیتے رہے حتی کہ میں نے اسے دیکھ لیا ہے، تم ہو کون؟ وہ کہے گا: میں وہ خوشی ہوں جو تم نے اپنے مومن بھائی کو دی تھی؛ پس اللہ نے مجھے خلق کیا کہ تمہیں بشارت دوں

علامہ ماحوذی کی تحقیق کے مطابق یہ روایت حسن مگر صحیح کی مانند سند کی حامل ہے۔ ملاحظہ ہو ثواب الاعمال، ص 414

براداران ایمانی! اس موضوع پر موجود روایات اور بھی کئی ہیں، مگر میں نے کچھ یہ ہدیہ کیں جو کہ اس مقصد کو پورا کرتی ہیں

یقین کیجیے! آپ دیگر مومنین کی مدد کیجیے، آپ کے مسائل ضرور بضرور حل ہوں گے۔ اس دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی

دعاؤں میں اس ناچیز کو ضرور یاد رکھیے گا

خاکپائے عزاداران امام حسین

Slave of Ahlubait



No comments:

Post a Comment