Thursday, March 3, 2016

ابو ہریرہ کا قسمیں اٹھا کر حدیث بتلانا، اور پھر اس سے پیچھے ہو جانا

السلام علیکم

ہمارے کسی بھی پوسٹ کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں، بلکہ صرف حق بات مستند کتب و اسناد سے لوگوں کی خدمت میں پہنچانا ہے

برادران اہلسنت کے ہاں  ابو ہریرہ کا بہت ہی اونچا درجہ ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ وہ صحابی ہیں، دوسرا یہ کہ سب سے زیادہ روایات بھی انہی سے مروی ہیں

مگر کیا ان کی روایات پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا ان کے زمانے میں ان کی روایات پر بھروسہ کیا جاتا تھا؟ اس عنوان سے  چند روایات پیش خدمت ہیں

 مسند احمد، اردو ترجمہ، 4/72 پر ایک روایت ملتی ہے جو کہ آن لائن لنک پر ج 2 ص 248 سے کاپی کر رہا ہوں

7382 - حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا سفيان عن عمرو عن يحيى بن جعدة عن عبد الله بن عمرو القارىء قال سمعت أبا هريرة يقول لا ورب هذا البيت ما أنا قلت : من أصبح جنبا فلا يصوم محمد ورب البيت قاله ما أنا نهيت عن صيام يوم الجمعة محمد نهى عنه ورب البيت 
تعليق شعيب الأرنؤوط : صحيح

ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ بیت اللہ کے رب کی قسم میں نے یہ بات نہیں کی کہ جس شخص کی حالت جنابت میں صبح ہو جائے، وہ روزہ نہ رکھے، بلکہ یہ بات محمد اور ان کے رب نے فرمائی۔ میں نے جمعہ والے دن روزے سے منع نہیں کیا بلکہ انہوں نے اور اس گھر کے رب نے منع کیا 

مترجم مولوی ظفر اقبال نے ترجمہ تھوڑا سا مختلف کیا ہے۔ اس میں انہوں نے رب کے حوالے سے ممانعت کا نہیں کہا۔ مگر میرے مطابق  
"محمد نهى عنه ورب البيت "
کا ترجمہ یوں ہی بنے گا 

خیر روایت کے بارے میں مولوی ظفر صاحب فرماتے ہیں کہ ابن خزیمہ اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے
شیخ البانی نے اسے اپنی کتاب سلسلہ احادیث صحیحیہ، 3/11، پر بھی درج کیا اور کہا کہ سند صحیح ہے، اور راوی سارے ثقہ ہیں 
نیز شیخ شعیب الارناؤط نے بھی اسے مسند احمد، 12/347 پر صحیح قرار دیا ہے 
نیز، یہی سند صحیح ابن حبان، 8/347 پر بھی مذکور ہے۔ گویا ابن حبان بھی اسے صحیح سند سمجھتے تھے، اور شیخ شعیب نے بھی ادھر اسے صحیح سند لکھا

تو جناب ابو ہریرہ اس بات پر قسمیں کھا رہے ہیں کہ یہ نبی اکرم نے کہا۔ اب ذرا ایک اور روایت ملاحظہ ہو

موطا امام مالک، اردو ترجمہ، تحقیق شیخ زبیر علی زئی، صفحہ 515، روایت 437 پر ایک طویل روایت ہے 

 عن سمي مولى أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام أنه سمع أبا بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام يقول : كنت أنا وأبي عند مروان بن الحكم ، وهو أمير المدينة ، فذكر له أن أبا هريرة يقول : من أصبح جنبا أفطر ذلك اليوم . فقال مروان : أقسمت عليك يا عبد الرحمن لتذهبن إلى أم المؤمنين عائشة وأم سلمة فلتسألنهما عن ذلك ، فذهب عبد الرحمن وذهبت معه حتى دخلنا على عائشة فسلم عليها ثم قال : يا أم المؤمنين ، إنا كنا عند مروان فذكر له أن أبا هريرة يقول : من أصبح جنبا أفطر ذلك اليوم . قالت عائشة : ليس كما قال أبو هريرة يا عبد الرحمن ، أترغب عما كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يصنع ؟ قال عبد الرحمن : لا والله ، قالت عائشة : فأشهد على رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه كان يصبح جنبا من جماع غير احتلام ثم يصوم ذلك اليوم . قال : ثم خرجنا حتى دخلنا على أم سلمة فسألها عن ذلك ، فقالت مثل ما قالت عائشة ، قال فخرجنا حتى جئنا مروان بن الحكم فذكر له عبد الرحمن ما قالتا ، فقال مروان : أقسمت عليك يا أبا محمد لتركبن دابتي فإنها بالباب فلتذهبن إلى أبي هريرة فإنه بأرضه بالعراق فلتخبرنه ذلك ، فركب عبد الرحمن وركبت معه حتى أتينا أبا هريرة ، فتحدث معه عبد الرحمن ساعة ثم ذكر له ذلك ، فقال أبو هريرة : لا علم لي بذلك ، إنما أخبرنيه مخبر . 


ابو بکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد ایک دن مروان کے پاس تھے، جب وہ مدینہ کے امیر تھے۔ ان کے پاس ذکر ہوا کہ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جو شخص صبح کے وقت جنبی ہو، وہ اس دن افطاری کر لے، یعنی روزہ نہ رکھے، اس پر مروان نے کہا کہ اے عبدالرحمن ! میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ عائشہ یا ام سلمہ کے پاس جائیں،اور ان سے سوال کریں۔پس وہ اور راوی گئے، اور عائشہ کے پاس جا کر سلام کیا۔ پھر کہا کہ اے مومنوں کی ماں! ہم مروان کے پاس تھے جب ابو ہریرہ کی اس بات کو ذکر ہوا کہ جو جنبی حال میں صبح کرے، وہ افطاری کر لے۔ اس پر عائشہ نے کہا کہ جیسا ابو ہریرہ نے کہا، ایسا نہیں ہے۔ کیا تم اس طریقے سے دور ہو گے جو نبی پاک کرتے تھے؟  
ہم نے کہا: خدا کی قسم نہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ بغیر احتلام کے جب جنبی حال میں صبح ہوتے، تو اس دن روزہ رکھتے۔ پھر ہم وہاں سے نکلے اور ام سلمہ کے پاس گئے۔ ان سے پوچھا۔ انہوں نے بھی اسی مثل جواب دیا۔ پھر ہم مروان کے پاس آئے، اور ان کو سب بتایا۔ اس پر مروان نے کہا کہ آپ میری سواری لے جاؤ اور ابوہریرہ سے جا کہ عراق میں ملو، اور انہوں خبر دو ۔ پس ہم گئے اور ابو ہریرہ سے ملے اور اسے بتایا۔ اس پر ابو ہریرہ نے کہا: مجھے اس کا علم نہیں، مجھے تو ایک مخبر نے خبر دی تھی

شیخ زبیر علی زئی نے سند کو صحیح کہا

آفرین ہے جناب! پہلے آپ قسمیں کھا رہے تھے۔ اب کہتے ہیں مجھے تو علم ہی نہیں

اسی طرح کی ایک اور روایت بھی مسند احمد میں ملتی ہے، جس میں اس واقعے کا مختصر انداز میں ذکر ہے۔ اردو ترجمہ میں وہ ج 12، ص 77-78 پر ملتی ہے۔ آن لائن لنک پر 6/308 پر ہے۔ وہیں سے کاپی کر رہا ہوں

26672 - حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرزاق ثنا معمر عن الزهري عن أبى بكر بن عبد الرحمن بن الحرث بن هشام قال سمعت أبا هريرة يقول قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أدركه الصبح جنبا فلا صوم له قال فانطلقت أنا وأبي فدخلنا على أم سلمة وعائشة فسألناهما عن ذلك فأخبرتانا ان رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يصبح جنبا من غير حلم ثم يصوم فلقينا أبا هريرة فحدثه أبى فتلون وجه أبي هريرة ثم قال هكذا حدثني الفضل بن عباس وهن أعلم 
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط الشيخين

ابو بکر بن عبدالرحمن نے کہا کہ میں نے ابو ہریرہ سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ نبی پاک نے کہا کہ جس نے صبح جنبی حال میں پائی، وہ روزہ نہ رکھے۔ پس میں اور میرے والد ام سلمہ و عائشہ سے ملے اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جب آپ کی صبح بغیر احتلام کے جنبی حال میں ہوتی، تو آپ روزہ رکھتے۔ جب ہم ابو ہریرہ سے ملے اور اسے بتایا تو اس کی چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اور اس نے کہا کہ مجھے تو فضل بن عباس نے بتایا تھا۔ امہات المومنین زیادہ علم رکھتی تھیں

شیخ شعیب نے سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح مانا

بلکہ مسند احمد، اردو ترجمہ، 11/409 پر ایک روایت ملتی ہے جس کا ایک جزو پیش کر رہے ہیں 

 فَأَخْبَرَا مَرْوَانَ بِذَلِكَ، فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَخْبِرْ أَبَا هُرَيْرَةَ بِمَا قَالَتَا فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: كَذَا كُنْتُ أَحْسَبُ، وَكَذَا كُنْتُ أَظُنُّ قَالَ: فَقَالَ لَهُ مَرْوَانُ: بِأَظُنُّ وَبِأَحْسَبُ تُفْتِي النَّاسَ

کہ جب مروان کو بتایا تو اس نے عبدالرحمن سے کہا کہ آپ ابو ہریرہ کو بتائیں، اس پر اس نے جواب دیا کہ میں نے اس کا حساب یوں لگایا، اور میرا گمان یہ تھا۔ اس پر مروان نے کہا کہ آپ اپنے حساب و گمان سے لوگوں میں فتوے دیتے ہیں؟

اس سند کو مسند احمد، تحقیق شیخ حمزہ احمد زین، ج 17، ص 614، پر شیخ حمزہ نے صحیح سند کہا ہے 

اب 
یہ جو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جب صحابی پر سند پہنچ جائے، تو بس مزید تحقیق کی ضرورت نہیں۔ اور اسی طرح کہ اگر صحابی کی مرسل ہو، تو مانی جاتی ہے؛ تو کیا ان باتوں میں کوئی وزن باقی رہ گیا ہے؟

ابو ہریرہ نے کوئی حدیث سنی نہیں تھی، بس ایک بندے سے بات سنی، خدا جانے اس نے کہا کیا تھا، مگر قسمیں کھا کھا کر بتانا شروع کیا۔ اب کمال یہ ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کو بھی بھروسہ تھا نہیں موصوف پر، وگرنہ تحقیق کیوں کر رہے تھے؟ انہوں نے کاؤنٹر چیک کیا، تو پتہ چلا کہ ایسا کچھ نہیں، وہ خود ہی اپنی لاعلمی کا اقرار کر گئے


No comments:

Post a Comment