السلام علیکم
کافی عرصے سے مصروفیات نے گھیرا ہوا ہے، جس کی بنا پر نیٹ سے دوری ہے۔ اس کے لیے معذرت
تاہم ابھی میں نے تھوڑی نیٹ پر سرچ کی، تو ایک ناصبی بنام سنی مجاہد کی ایک پوسٹ نظر سے گذری
سورۃ حج کی آیت ۵۲ کے بارے میں ایک شیعہ روایت پیش کر کے شیعہ حضرات سے سوال کرتے ہیں
Quote
٭ اگر وہ آیت اسی طرح تھی جس طرح مروجہ قرآنی نسخوں میں درج ہے۔ لفظ محدث کے بغیر۔ جو جس آیت میں لفظ محدث کا اضافہ ہو، آپ لوگ اسے کیا قرار دیں گے؟ کیا آپ اسے قرآن میں تحریف قرار دیں گے یا نہیں؟ کیونکہ اضافہ بھی تو تحریف ہوتا ہے۔
کیا ہی خوب ہوتا کہ وہ یہ سوال اپنے امام المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس سے کر لیتے۔ فتح الباری، ۷/۵۱؛ پر ابن حجر تحریر کرتے ہیں
ان کے قول: کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی میں سے نہ ہی محدث؛ یہ اللہ کے اس قول کے بارے میں ہے ( وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي إلا إذا تمنى )؛ کیونکہ ابن عباس اس میں اضافہ کرتے تھے ( ولا محدث)۔ سفیان بن عینیۃ نے اسے درج کیا، اور عبد بن حمید نے ان کے طریق سے درج کیا، اور اس کی سند ابن عباس تک صحیح ہے؛ اور اس کے الفاظ یہ ہیں کہ عمرو بن دینار نے کہا کہ ابن عباس اس کی قرات یوں کرتے تھے ( وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي ولا محدث )
عربی متن یوں ہے
Quote
قوله : ( قال ابن عباس : من نبي ولا محدث ) أي في قوله تعالى : وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي إلا إذا تمنى الآية ، كأن ابن عباس زاد فيها ولا محدث أخرجه سفيان بن عيينة في أواخر جامعه ، وأخرجه عبد بن حميد من طريقه وإسناده إلى ابن عباس صحيح ، ولفظه عن عمرو بن دينار قال " كان ابن عباس يقرأ : ( وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي ولا محدث )
موصوف نے کہا تھا
Quote
کیونکہ اضافہ بھی تو تحریف ہوتا ہے۔
اور ابن حجر نے کہا کہ ابن عباس اس میں اضافہ کرتے تھے
اب دیکھتے ہیں کہ ابن عباس کے بارے میں کیا فتوی صادر کریں گے
ایک اور بات بھی کرتا چلوں کہ موصوف نے ایک کتاب، بنام، ( ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اسکا نظام )؛ سے کچھ حوالے لے کر، وہ سب بھی ہم پر تھوپ ڈالے
آفرین ہے
No comments:
Post a Comment