السلام علیکم
ناصبیوں کی جانب سے ان ایام میں بالخصوص یہ اعتراض آنا شروع ہو جاتا ہے کہ دیکھو یہ شیعہ امام حسین کی زیارت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا تو ایسا ثواب ہے جیسا کہ حج کا اور یہ گناہ بخشوا دیتا ہے وغیرہ
یہاں پر ہم ایک بات کو واضح کرتے چلیں کہ جب کسی عمل کا ثواب بیان کیا جاتا ہے تو وہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کی ترغیب دی جائے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال ہم یوں دیں گے کہ بعض اوقات ایک عمل مستحب ہوتا ہے، مگر اس کا ثواب اتنا ہوتا ہے کہ وہ واجب سے بھی زیادہ ہوتا ہے
اہلسنت کے عالم شیخ محمد سفارینی حنبلی اپنی کتاب شرح ثلاثیات مسند الامام احمد، جلد 1، صفحہ 94 پر فرماتے ہیں
ابتدا السلام افضل من ردہ، مع ان ابتدا السنۃ، و ردہ واجب، و ھذا احد المواضع التی السنۃ افضل فیھا من الواجب
یعنی سلام کرنے میں پہل کرنا افضل ہے جواب دینے سے۔ حالانکہ پہلے سلام کرنا سنت ہے، اور اس کا جواب دینا واجب۔ اور یہ ان مثالوں میں سے ایک ہے کہ جہاں سنت واجب سے افضل ہے
اب کوئی بھی ذی شعور اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بات کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ آپ سلام کرنے میں پہل کرو
برادران اہلسنت کے ہاں بھی ایسی روایات موجود ہیں کہ جس میں عمل کے ثواب کو اس انداز سے بیان کی گیا ہے۔
مثال کے طور پر سنن ابی داؤد، ج 1، صفحہ 449 تحقیق زبیر علی زئی، میں یہ روایت ملتی ہے
558 - حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ، وَمَنْ خَرَجَ إِلَى تَسْبِيحِ الضُّحَى لَا يَنْصِبُهُ إِلَّا إِيَّاهُ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ، وَصَلَاةٌ عَلَى أَثَرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ»
رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص وضو کر کے فرض نماز کے لیے گھر سے باہر نکلے تو یہ ایسا ہے جیسا کہ ایک حاجی احرام باندھے نکلا ہو۔ اور جو چاشت کی نماز کے لیے نکلے، تو یہ ایسا ثواب رکھتا ہے جیسا کہے عمرہ کا اجرو ثواب ہو۔ اور جو ایک نماز سے دوسرے کے درمیان لغو نہ کرے، تو اس کو کتاب علین میں درج کیا جاتا ہے
شیخ زبیر علی زئی نے سند کو حسن قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس سند کو حسن کہا ہے
کوئی بھی ذی شعور سمجھ سکتا ہے کہ یہاں پر رغبت دلائی گئی ہے
ایک اور مثال ملاحظہ ہو
صحیح جامع الصغیر، تحقیق شیخ البانی، ج 2، ص 1086؛ میں ہمیں یہ روایت ملتی ہے
6346 - 2144 - «من صلى الفجر في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة تامة تامة تامة» .
(صحيح) [ت] عن أنس. صحيح الترغيب 464.
(صحيح) [ت] عن أنس. صحيح الترغيب 464.
نبی پاک نے فرمایا کہ جو شخص فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرے، پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے، حتی کہ سورج طلوع ہو جائے، پھر وہ دو رکعت نماز ادا کرے، تو اس کے لیے ایسے ثواب ہے جیسا کہ مکمل مکمل مکمل حج اور عمرہ
یہ روایت سنن ترمذی، ج 2، ص 481، طبع شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر؛ پر بھی موجود ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی نے وہاں پر اسے حسن کا درجہ دیا ہے
سعودیہ کے مفتی، شیخ ابن باز اپنے مجموع الفتاوی، ج 25، ص 171 پر اسی روایت کی اسنادی حیثیت پر بات کرتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ
هذا الحديث له طرق لا بأس بها، فيعتبر بذلك من باب الحسن لغيره،
یہ حدیث ایسے اسناد رکھتی ہے کہ جن میں کوئی برائی نہیں۔ پس یہ معتبر ہے اور حسن لغیرہ کے باب سے تعلق رکھتی ہے
آپ خود سوچیں کہ حج آپ شاید زندگی میں ایک یا دو یا بہت کر لیا تو تین کر لیں گے، مگر یہ تو آپ روز ہی کر سکتے ہیں۔
سوچیں کہ کیا پھر ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے؟
مگر اہل عقل اس بات کا سمجھ لیں گے کہ یہاں ترغیب دلانا مقصد ہے
دعاؤں میں یاد رکھیے گا
خاکپائے عزاداران سید الشہدا
Slave of Ahlubait
No comments:
Post a Comment