Wednesday, April 20, 2016

حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو خلیفہ کیوں نہ بنایا؟

السلام علیکم 

ابن سعد اپنی طبقات، 3/343، پر ایک روایت درج کرتے ہیں

قَالَ: أَخْبَرَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: " مَنْ أَسْتَخْلِفْ لَوْ كَانَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَيْنَ أَنْتَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ؟ فَقَالَ: قَاتَلَكَ اللَّهُ، وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ اللَّهَ بِهَذَا، أَسْتَخْلِفُ رَجُلًا لَيْسَ يُحْسِنُ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ "


حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اگر میں کسی کو خلیفہ بناؤ، تو ابو عبیدہ کو بناؤ۔ ایک آدمی نے پوچھا کہ عبداللہ بن عمر کہاں گئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ خدا تمہیں غارت کرے، خدا کی قسم میں اللہ کا ارادہ ایسا نہیں دیکھتا، ایسے شخص کو خلیفہ بناؤ جو کہ بیوی کو اچھے طریقے سے طلاق بھی نہیں دے سکتا

اس روایت کی سند کو ابن حجر نے فتح الباری، 7/67، میں صحیح مرسل ابراہیم نخعی کہا ہے

 وَأخرج بن سَعْدٍ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ مِنْ مُرْسَلِ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کی مرسل بھی قابل قبول ہوتی ہے 

جیسا کہ علامہ ذہبی کہتے ہیں 

نعم و ان صح الاسناد الی تابعی متوسط الطبقة کمراسیل مجاھد و ابراھیم والشعبی فھو مرسل جید لا باس به

ہاں اگر صحیح سند متوسط طبقے کے تابعی تک ہو جیسا کہ مجاہد یا ابراہیم یا شعبی تو وہ مرسل جید/خوب ہے، اس میں کوئی برائی نہیں

اسی طرح ابن عبدالبر اپنے الاستذکار، 6/137، پر کہتے ہیں 

وأجمعوا أن مراسيل إبراهيم صحاح

ابراہیم کے مرسل کے صحیح ہونےپر اجماع ہے

جمال الدین قاسمی نے قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث ، ص 142 پر کہا کہ امام احمد بن حنبل کہتے تھے کہ ابراہیم کے مرسل میں کوئی خرابی نہیں

بیہقی نے سنن الکبری، 1/147 پر یحیی ابن معین کےحوالے سے لکھا کہ وہ ابراہیم کے مرسل کو صحیح مانتے تھے 

ابن تیمیہ نے السارم المسلول، ص 1/581 پر لکھا کہ ابراہیم کے مرسل جید ہوتی ہے



No comments:

Post a Comment