Monday, November 24, 2014

مولا علی: رسول اللہ کے بھائی اور ساتھی؛ اور شیخ البانی کی غلط بیانی



السلام علیکم

شیخ البانی اپنی کتاب، سلسلہ احادیث ضعیفیۃ، جلد ۱۰، صفحہ ٦۳۸، حدیث ۴۹۴۱؛ پر درج کرتے ہیں کہ 

نبی پاک کی حدیث کہ اے علی! تم میرے بھائی اور دوست ہو؛ یہ ضعیف ہے۔ اسے ابن عبدالبر نے حضرت علی علیہ السلام کے ترجمہ میں لکھا ایسی سند سے لکھا کہ جس میں علتیں ہیں، نیز اس کی متابعت میں ایک اور روایت بھی ہے جو ابن عساکر نے اپنی سے سند سے لکھی، تاہم اس میں بھی ضعف ہے- 

عربی متن یوں ہے


4941 - (أنت أخي وصاحبي) (1) .
ضعيف
أخرجه ابن عبد البر - في ترجمة علي من "الاستيعاب" (3/ 1098) - من طريق حجاج عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ... فذكره.
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ وله علتان:
الأولى: الانقطاع بين الحكم - وهو ابن عتيبة الكندي مولاهم - وبين مقسم؛ فإنه لم يسمع منه إلا خمسة أحاديث؛ ليس منها هذا.
والأخرى: عنعنة الحجاج - وهو ابن أرطاة -؛ فإنه مدلس.
وقد وجدت له متابعاً؛ لكن الإسناد إليه ضعيف.
أخرجه ابن عساكر (12/ 69/ 1) من طريق محمد بن عبد الله بن أبي جعفر الرازي عن أبيه عن شعبة عن الحكم به.
قلت: وعبد الله بن أبي جعفر الرازي؛ قال الحافظ:
"صدوق يخطىء".

کسی بھی حدیث کو ضعیف کہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی باقی اسناد کو بھی دیکھا جائے، نہ کہ صرف چند اسناد پر ہی حکم لگا دیا جائے

یہی الفاظ ہمیں ایک اور روایت میں بھی ملتے ہیں

نسائی نے اپنی سنن الکبری، جلد ۵، صفحہ ۱۲۵؛ پر درج کیا

ایک شخص نے مولا علی سے پوچھا کہ اے امیر المومنین! آپ نے اپنے چچا کی موجودگی میں کیسے وراثت پائی؟ اس پر مولا نے فرمایا کہ نبی پاک نے بنی عبدالمطلب کو کھانے پر جمع کیا، اور ان کے لیے کھانا پیش کیا۔ تو انہوں نے کھایا، مگر ایسے لگا جیسے کسی نے اسے ہاتھ ہی نہ لگایا ہو۔ پھر مشروب پیش کیا، وہ بھی لوگوں نے پیا، مگر ایسے لگا جیسے کسی نے پیا ہی نہ ہو- پھر آپ نے کہا کہ اے بنی عبدالمطلب! میں خاص طور پر تمہارے لیے، اور عام طور پر باقیوں کے لیے ایا۔ تم نے یہ معجزہ دیکھا- پس تم میں کون ہے جو میری بیعت کرے تاکہ میرا بھائی، ساتھی اور وارث بنے۔ کوئی نہ کھڑا ہوا- پس میں کھڑا ہوا، جبکہ میں سب میں کم عمر تھا۔ مگر نبی پاک نے کہا کہ بیٹھ جاو۔ انہوں نے تین بار کہا، اور میں کھڑا ہوا۔ تیسرے بار میں انہوں نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارااور کہا : تم میرے بھائی، ساتھ، وارث اور وزیر ہو- پس میں نے وراثت پائی


عربی متن یوں ہے


8451 - أخبرنا الفضل بن سهل قال حدثني عفان بن مسلم قال حدثنا أبو عوانة عن عثمان بن المغيرة عن أبي صادق عن ربيعة بن ناجد أن رجلا قال لعلي يا أمير المؤمنين لم ورثت بن عمك دون عمك قال : جمع رسول الله صلى الله عليه و سلم أو قال دعا رسول الله صلى الله عليه و سلم بني عبد المطلب فصنع لهم مدا من طعام قال فأكلوا حتى شبعوا وبقي الطعام كما هو كأنه لم يمس ثم دعا بغمر فشربوا حتى رووا وبقي الشراب كأنه لم يمس أو لم يشرب فقال يا بني عبد المطلب إني بعثت إليكم بخاصة وإلى الناس بعامة وقد رأيتم من هذه الآية ما قد رأيتم فأيكم يبايعني على أن يكون أخي وصاحبي ووارثي فلم يقم إليه أحد فقمت إليه وكنت أصغر القوم فقال اجلس ثم قال ثلاث مرات كل ذلك أقوم إليه فيقول اجلس حتى كان في الثالثة ضرب بيده على يدي ثم قال أنت أخي وصاحبي ووارثي ووزيري فبذلك ورثت بن عمي دون عمي

اس روایت میں ہمیں اخی و صاحبی کے ساتھ ساتھ وارثی و وزیری کے الفاظ بھی ملتے ہیں

روایت کے سند پر نظر دوڑائیں، تو یوں ہے

أخبرنا الفضل بن سهل قال حدثني عفان بن مسلم قال حدثنا أبو عوانة عن عثمان بن المغيرة عن أبي صادق عن ربيعة بن ناجد 

راویان کے بارے میں ہم ابن حجر کا نظریہ بیان کر دیتے ہیں- اس کے لیے ان کی کتاب تقریب التہذیب کا سہارا لیتے ہیں

فضل بن سہل کے لیے کہتے ہیں کہ یہ صدوق یعنی سچے ہیں

5403- الفضل ابن سهل ابن إبراهيم الأعرج البغدادي أصله من خراسان صدوق من الحادية عشرة مات سنة خمس وخمسين وقد جاوز السبعبن خ م د ت س

عفان بن مسلم کے لیے کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ثبت ہیں

4625- عفان ابن مسلم ابن عبد الله الباهلي أبو عثمان الصفار البصري ثقة ثبت

ابو عوانہ کو بھی ثقہ اور ثبت قرار دیا


7407- وضاح بتشديد المعجمة ثم مهملة ‏[‏بن عبد الله‏]‏ اليشكري بالمعجمة الواسطي البزاز أبو عوانة مشهور بكنيته ثقة ثبت من السابعة مات سنة خمس أو ست وسبعين ع

عثمان بن مغیرہ کو بھی ثقہ قرار دیا

4520- عثمان ابن المغيرة الثقفي مولاهم أبو المغيرة الكوفي الأعشى وهو عثمان ابن أبي زرعة ثقة من السادسة خ 4

ابو صادق کو صدوق قرار دیا

8167- أبو صادق الأزدي الكوفي قيل اسمه مسلم ابن يزيد وقيل عبد الله ابن ناجد صدوق وحديثه عن علي مرسل من الرابعة س ق

ربیعہ بن ناجد کو بھِی ثقہ قرار دیا

1918- ربيعة ابن ناجد الأزدي الكوفي يقال هو أخو أبي صادق الراوي عنه ثقة من الثانية س ق


کچھ لوگوں نے آخری راوی کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ یہ مجہول ہیں جیسے کہ شیخ شعیب الارناوط نے مسند احمد میں موجود اسی روایت (نمبر ۱۳۷۱) کے بارے میں کہا


اس وجہ سے ضروری ہے کہ کچھ وضاحت کر دی جائے 


سلفی عالم، زبیر علی زئی، سنن ابن ماجہ کے شروع میں تخریج کے اصول بیان کرتے ہیں کہ اگر اسماء الرجال کے متساہل علما (جیسے ابن حبان، ترمذی) میں ۲ عالم کسی کو ثقہ قرار دیں تو وہ راوی صدوق اور حسن الحدیث قرار پاتا ہے


نیز، یہ کہ کچھ علما عجلی کو متساہل سمجھتے ہیں، تاہم زبیر صاحب کی مطابق، وہ امام احمد، ابن معین کی طرح معتدل ہیں

ملاحظہ ہو سنن ابن ماجہ، جلد ۱، صفحہ ۳۸-۳۹، طبع دارالسلام


اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ابن حجر کی کتاب تہذیب التہذیب میں ربیعہ کا ترجمہ نمبر ۴۹۸ ملاحظہ ہو

ذكره بن حبان في الثقات

یعنی ابن حبان نے انہیں ثقات میں قرار دیا 

نیز

وقال العجلي كوفي تابعي ثقة

عجلی نے کہا کہ یہ ثقہ ہیں


یاد رہے کہ صرف ہم یہ یہ دعوی نہیں کر رہے

یہ روایت اس سند کے ساتھ مسند احمد میں آئی ہے

حدثنا عفان بن مسلم قال حدثنا أبو عوانة عن عثمان بن المغيرة عن أبي صادق عن ربيعة بن ناجد 

اور شیخ احمد شاکر نے اسے صحیح سند مانا ہے (مسند احمد، جلد ۲، صفحہ ۱٦۴)

المقدسی نے بھی اسے اپنی الاحادیث الامختارہ، جلد ۲، صفحہ ۷۱؛ پر درج کیا- گویا ان کی نظر میں یہ مستند مانا

نیز، اس کتاب کے محقق، عبدالملک دہیش نے سند کو حاشیہ میں صحیح کہا 

ہیثمی مجمع الزوائد، جلد ۸، صفحہ ۳۰۲؛ پر کہتے ہیں

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

احمد نے روایت کی، اور راوی ثقہ ہیں

اب اگر کوئی کہتے کہ یہ سند ضعیف ہے، تو ہم مزید کیا کہہ سکتے ہیں

No comments:

Post a Comment