Friday, August 28, 2015

کیا صرف صحیح حدیث کی بنیاد ہر اہلسنت کے ہاں عقیدہ قائم کیا جا سکتا ہے؟

السلام علیکم

کئی بار میں نے یہ دیکھا کہ برادران اہلسنت صرف قرآن سے دلیل مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے آج ہم کچھ جید علماء کے اقوال پیش کریں گے۔

سب سے پہلے ہم ابن تیمیہ کا قول دیکھتے ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں

مذهب أصحابنا أن أخبار الآحاد المتلقاة بالقبول تصلح لإثبات أصول الديانات
 
ہمارے اصحاب کا مذہب یہ ہے کہ وہ خبر واحد جن سے اصول دین ثابت ہوتے ہیں، اور ہم تک پہنچے ہیں، انہیں قبول کرتے ہیں

دیکھیے کتاب، المسودة في أصول الفقه ج 1، ص 469

اسی طرح شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو دجال، امام مہدی علیہ السلام، حضرت عیسی کی آمد وغیرہ کا انکاری ہو،اور اسے نبی اکرم پر جھوٹ مانتا ہو۔ جبکہ یہ شخص نمازی، روزہ دار، اور دیگر واجبات کو بجا لاتا ہے، ایسے شخص کی کیا حالت ہو گی۔ موصوف جواب دیتے ہیں

ج: مثل هذا الرجل يكون كافراً والعياذ بالله، لأنه أنكر شيئاً ثابتاً عن رسول الله عليه الصلاة والسلام، فإذا كان بين له أهل العلم ووضحوا له ومع هذا أصر على تكذيبها وإنكارها فيكون كافراً؛ لأن من كذَّب رسول الله صلى الله عليه وسلم فهو كافر، ومن كذَّب الله فهو كافر، وقد صحت وتواترت هذه الأخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في نزول المسيح ابن مريم من السماء في آخر الزمان، ومن خروج يأجوج ومأجوج وخروج الدجال في آخر الزمان، ومن مجيء المهدي، كل هذا الأربعة ثابتة: المهدي في آخر الزمان يملأ الأرض قسطاً وعدلاً بعد أن ملئت جوراً ونزول المسيح ابن مريم، وخروج الدجال في آخر الزمان، وخروج يأجوج ومأجوج، كل هذا ثابت بالأحاديث الصحيحة المتواترة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فإنكارها كفر وضلال نسأل الله العافية والسلامة.

 اس شخص کی مثال کافر کی سی ہے۔ عیاذ باللہ۔ کیونکہ یہ ان باتوں کا انکار کر رہا ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہیں۔ جب اہل علم اس کے لیے یہ بیان کر دیں، اور وضاحت کر دیں، اور یہ پھر بھی مصر ہو، اور انکار کرتا ہو، تو یہ کافر ہے۔ کیونکہ جو نبی اکرم کی تکذیب کرے، وہ کافر ہے۔ اور جو اللہ کی تکذیب کرے، وہ کافر ہے۔ اور یہ روایات مستند اور تواتر تک پہنچی ہیں نبی اکرم سے۔ حضرت عیسی کی آمد آسمان سے آخری زمانے میں ، یاجوج ماجوج کا خروج، اور دجال کا خروج، امام مہدی کی آمد، یہ سب ثابت ہیں۔ المہدی جو کہ زمین کو عدل سے بھر دیں گے، اور حضرت عیسی کا نزول، اور دجال کا آخری زمانے  میں خروج، اسی طرح یاجوج ماجوج کا؛ یہ سب صحیح متواتر روایت سے ثابت ہے
اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔ ہم اللہ سے عافیت اور سلامتی چاہتے ہیں

دیکیھے فتاوی نور علی درب، ج 1، ص 355-356

ابن تیمیہ نے اس بات کو واضح کر دیا تھا کہ اگر خبر واحد بھی ہو، تو بھی اصول دین کے لیے قبول ہے۔ اور یہاں ایسے امور کا بھی ذکر ہے کہ جو قرآن میں نہیں، مگر ان کا انکار کفر قرار دیا گیا ہے۔ 
صرف ایک اور بات کا اضافہ کرتے چلیں کہ کچھ بھائی یہ کہہ ڈالتے ہیں کہ یہ بات بخاری و مسلم میں نہیں

ایسے لوگوں کو محمد بن صالح العثيمين جواب دیتے ہیں۔ ان سے سوال ہوا کہ ہمارے ہاں ایک شخص ہے جو کہ بخاری و مسلم کے علاوہ کسی بات سے استدلال نہیں کرتا، کیا یہ صحیح طریقہ ہے

موصوف جواب دیتے ہیں

الصحيح أن كل ما صَحّ عن النبي -صلى الله عليه وعلى آله وسلم- فهو حُجة، سواء كان من الصحيحين أو من غيرهما، والصحيحان لم يستوعبا جميع الأحاديث الصحيحة عن رسول الله -صلى الله عليه وعلى آله وسلم-، بل هناك أحاديث صحيحة ليست في الصحيحين ولا في أحدهما، وقد قَبِلها الناس وصححوها وعملوا بها واعتقدوا بمقتضاها

صحیح بات یہ ہے کہ جو کچھ بھی نبی پاک سے ثابت ہے، وہ حجت ہے، چاہے وہ بخاری و مسلم میں ہو، یا کسی اور کتاب میں۔ ان دونوں کتب نے ساری کی ساری صحیح حدیثوں کو جمع نہیں کیا، بلکہ ایسی صحیح حدیثیں ہیں جو کہ ان میں نہیں، مگر لوگوں نے انہیں قبول کیا، ان کو مستند مانا، ان پر عمل کیا، اور انہیں عقیدہ کا حصہ بنایا جسیا کہ وہ تقاضہ کرتی تھیں

دیکھیے فتاوى نور على الدرب ج2 ص438 س1054

اس سب کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بات احادیث سے بھی ثابت ہو، اور ابن تیمیہ کے مطابق بھلے ہی وہ خبر واحد ہو، تب بھی وہ حجت ہے، اور اس سے عقیدہ تک ثابت کیا جاتا ہے

اسکین ملاحظہ ہوں


 






 

No comments:

Post a Comment