السلام علیکم
اس حدیث کے حوالے سے چند روایات پیش خدمت ہیں؛
ان میں سے جو روایات صحیح بخاری و مسلم سے نقل کی گئیں ہیں، ان کے ترجمے ہم نے آن
لائن لنک سے حاصل کیے
مسند احمد کے لیے اس کے مترجم، مولوی ظفر کا ترجمہ استعمال کیا ہے، اور باقی کا خود کیا ہے
آن لائن لنک یہ رہا
روایت نمبر 1
114 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ،
قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ
بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ قَالَ: «ائْتُونِي بِكِتَابٍ
أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَهُ» قَالَ عُمَرُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الوَجَعُ، وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا.
فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: «قُومُوا عَنِّي، وَلاَ يَنْبَغِي عِنْدِي
التَّنَازُعُ» فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: «إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ،
مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ»
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ
عبد الستار حماد (دار السلام)
114. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے
فرمایا: جب نبی ﷺ بہت بیمار ہو گئے تو آپ نے فرمایا؛ "لکھنے کا سامان لاؤ تاکہ
میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔" حضرت عمر
ؓ نے کہا: نبی ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے، وہ
ہمیں کافی ہے۔ لوگوں نے اختلاف شروع کر دیا اور شوروغل مچ گیا۔ تب آپ نے فرمایا:
"میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے ہاں لڑائی جھگڑے کا کیا کام ہے؟" پھر حضرت ابن
عباس ؓ نکلے، فرماتے تھے: تمام مصائب سے بڑی مصیبت وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کی
تحریر کے درمیان حائل ہو گئی[i]
اس روایت پر اگر توجہ دیں تو واضح طور
پر نظر آ رہا ہے کہ اختلاف کا سبب حضرت عمر بنے جب انہوں نے یہ کہا کہ نبی پاک پر
بیماری کا غلبہ ہے، اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے، وہ کافی ہے
یعنی آسان الفاظ میں وہ اس بات کے حامی
نہیں تھے کہ رسول اللہ کچھ بھی تحریر کریں
روایت نمبر 2
ایک اور روایت ملاحظہ ہو
3053. حَدَّثَنَا
قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَحْوَلِ، عَنْ سَعِيدِ
بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُ قَالَ: يَوْمُ
الخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الخَمِيسِ؟ ثُمَّ بَكَى حَتَّى خَضَبَ دَمْعُهُ الحَصْبَاءَ،
فَقَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ يَوْمَ
الخَمِيسِ، فَقَالَ: «ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا
بَعْدَهُ أَبَدًا»، فَتَنَازَعُوا، وَلاَ يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، فَقَالُوا: هَجَرَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،۔۔۔۔۔۔
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ
عبد الستار حماد (دار السلام)
3053. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،
انھوں نے کہا: جمعرات کا دن !کیا ہےجمعرات کا دن!اس کے بعد وہ اس قدرروئےکہ آنسوؤں
سے زمین کی کنکریاں تر ہوگئیں۔ پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن رسول اللہ ﷺ کی بیماری
زیادہ ہو گئی تو آپ نے فرمایا: "میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ لاؤتاکہ میں تمھیں
ایک تحریر لکھوادوں، تم اس کے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔ "لیکن لوگوں نے
اختلاف کیا اور نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ پھر لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو
جدائی کی باتیں کر رہے ہیں[ii]
یہ روایت ایک اور راوی سے نقل کی گئی
ہے۔ جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس نے اس واقعے کو کوئی بار
دہرایا۔ اور اس طرح سے دہرایا کہ وہ روئے۔۔۔۔۔۔کس قدر روئے؟ اس قدر کے زمین کی
کنکریاں تر ہو گئیں۔۔۔۔یہ اس واقعے کی شدت کو بیان کر رہا ہے۔
اچھا اس روایت کے ترجمے میں مولوی صاحب
نے ڈنڈی مار دی
لفظ ھجر استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہوتا
ہے ہذیان یا بہکی بہکی باتیں کرنا
اہل سنت کے مشہور
عالم، ابن اثیر، نے اس لفظ کے تحت لکھا
وهَجَرَ يَهْجُرُ هَجْراً ، بِالْفَتْحِ، إِذَا خَلَط فِي كَلَامِهِ، وإذا
هَذَى
یعن ھجر، زبر کے ساتھ ہے، جب کوئی اپنے
کلام میں اختلاط کرے یا اسے ھذیان ہو
اور آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ اسی ھجر
کی بجائے اھجر کا استعمال بھی ہوا ہے۔ اس
کی وضاحت آگے چل کر کریں گے
روایت نمبر 3
اسی طرح کی روایت صحیح مسلم میں بھی ہے
1637. حَدَّثَنَا
سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،
وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، وَاللَّفْظُ لِسَعِيدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ
سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:
يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى،
فَقُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ
اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ: «ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ
كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدِي»، فَتَنَازَعُوا وَمَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ،
وَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟
مترجم: ١. پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود
جلالپوری (دار السلام)
1637. ہمیں سعید بن منصور،قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی
شیبہ اور عمرو ناقد نے حدیث بیان کی ۔۔ الفاظ سعید کے ہیں ۔۔ سب نے کہا: ہمیں سفیان
نے سلیمان احول سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی، انہوں نے کہا:
حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: جمعرات کا دن، اور جمعرات کا دن کیسا تھا! پھر وہ رونے لگے
یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں نے سنگریزوں کو تر کر دیا۔ میں نے کہا: ابوعباس! جمعرات کا
دن کیا تھا؟ انہون نے کہا: رسول اللہ ﷺ کا مرض شدت اختیار کر گیا تو آپ نے فرمایا:
"میرے پاس (لکھنے کا سامان) لاؤ، میں تمہیں ایک کتاب (تحریر) لکھ دوں تاکہ تم
میرے بعد گمراہ نہ ہو۔" تو لوگ جھگڑ پڑے، اور کسی بھی نبی کے پاس جھگڑنا مناسب
نہیں۔ انہوں نے کہا: آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ نے بیماری کے زیر اثر گفتگو کی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔[iv]
اب یہاں پر آپ واضح الفاظ میں دیکھ
سکتے ہیں کہ لفظ "اھجر" استعمال ہوا ہے۔ باقی روایت پچھلی روایت کی
مانند ہی ہے کہ ابن عباس روئے، اور اس قدر روئے کہ سنگریزوں کو تر کر دیا۔۔۔۔۔
مگر صحیح مسلم کے مترجم نے اب یہاں
ڈنڈی مار دی
اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ یہ ھجر یا
اھجر ایسے ہیں کہ ان کے مترجمین کو ڈنڈی ماری پڑ رہی ہے،
صحیح بخاری کے مترجم، حافظ عبدالستار
نے اگلی روایت میں اس کا ترجمہ یوں کیا ہے
کیا آپ شدتِ مرض کی وجہ سے بے معنی کلام
کر رہے ہیں
یعنی وہ تسلیم کر
رہے ہیں کہ اھجر کا مطلب ہے بے معنی کلام۔۔۔۔۔
روایت نمبر 4
4431. حَدَّثَنَا
قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ
قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ اشْتَدَّ بِرَسُولِ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ فَقَالَ ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ
كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ
تَنَازُعٌ فَقَالُوا مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ۔۔۔۔۔۔۔
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ
عبد الستار حماد (دار السلام)
4431. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعرات کے
دن کا ذکر کیا اور فرمایا تمہیں معلوم بھی ہے کہ جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ اس دن رسول
اللہ ﷺ کے مرض میں شدت پیدا ہوئی۔ اس وقت آپ نے فرمایا: "تم میرے پاس آؤ، میں
تمہیں کوئی دستاویز لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑو گے۔"
لیکن وہاں اختلاف ہو گیا، حالانکہ نبی ﷺ کے سامنے اختلاف نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کچھ
لوگوں نے کہا: آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ شدتِ مرض کی وجہ سے بے معنی کلام کر رہے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[v]
روایت نمبر 5
5669. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى،
حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ
بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا
حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي البَيْتِ رِجَالٌ، فِيهِمْ
عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلُمَّ
أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَهُ» فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الوَجَعُ، وَعِنْدَكُمُ القُرْآنُ،
حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ. فَاخْتَلَفَ أَهْلُ البَيْتِ فَاخْتَصَمُوا، مِنْهُمْ مَنْ
يَقُولُ: قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا
لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا
اللَّغْوَ وَالِاخْتِلاَفَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُومُوا» قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ:
فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: «إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ
بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ
ذَلِكَ الكِتَابَ، مِنَ اخْتِلاَفِهِمْ وَلَغَطِهِمْ»
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ
عبد الستار حماد (دار السلام)
5669. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا رو گھر میں کئی صحابہ کرام ؓم موجود تھے۔
ان مین حضرت عمر ؓ بھی تھے نبی ﷺ نے فرمایا: ”آؤ، میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ
دوں، اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے۔ “ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: بلاشبہ نبی ﷺ
نے کہا: بلاشبہ نبی ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے، ہمارے
لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس مسئلے پر گھر میں موجود صحابہ کرام ؓ کا اختلاف ہوگیا
اور وہ بحث و تمحیص کرنے لگے۔ بعض نے کہا کہ نبی ﷺ کے ہاں اسباب کتابت قریب کرو تاکہ
رسول اللہ ﷺ ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو اور کچھ صحابہ وہ کہتے
تھے جو حضرت عمر ؓ نے کہا تھا۔ بہرحال جب لوگوں نے نبی ﷺ کے پاس بے مقصد باتیں زیادہ
کیں جھگڑا کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(یہاں سے) چلے جاؤ“ حضرت عبید اللہ نے بیان
کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہی ہے کہ
لوگوں کے اختلاف اور بحث وتحمیص کے باعث رسول اللہ ﷺ وہ تحریر نہ لکھ سکے جو آپ مسلمانوں
کے لیے لکھناچاہتے تھے [vi]۔
یہ روایت ہمیں بتا رہی ہے کہ اس وقت صحابہ موجود تھے، اور ان میں خاص
طور پر ابن عباس نے ایک نام لیا۔ کہ وہ بھی ان میں تھے۔
اور انہوں نے یہ بات کی کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے، اور وہ کافی ہے؛
اور اس پر یہ مسئلہ کھڑا ہوا اور آپ وہ تحریر درج نہ کر سکے
اور ابن عباس نے اسے "سب سے زیادہ افسوسناک" قرار دیا
یعنی آج اگر آپ کو اس امت میں گمراہی نظر آ رہی ہے، تو آپ بہت آسان
الفاظ میں سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا کریڈٹ کسے دینا ہے۔۔۔۔۔
روایت نمبر 6
7366. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى
أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ
اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا حُضِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ هَلُمَّ
أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ قَالَ عُمَرُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمْ الْقُرْآنُ فَحَسْبُنَا
كِتَابُ اللَّهِ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ
قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا
لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ فَلَمَّا أَكْثَرُوا
اللَّغَطَ وَالِاخْتِلَافَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ
قُومُوا عَنِّي قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ إِنَّ الرَّزِيَّةَ
كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ مِنْ اخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ
عبد الستار حماد (دار السلام)
7366. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا:
نبی ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سےصحابہ کرام موجود تھے۔ ان میں سیدنا
عمر بن خطاب ؓ بھی تھے۔(اس وقت) آپ ﷺ نے فرمایا: ”آؤ ،میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ
دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہں ہو گے۔“ سیدنا عمر ؓ نے کہا: نبیﷺ اس وقت تکلیف
میں مبتلا ہیں،تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے گھر کے لوگوں
میں بھی اختلاف ہوگیا اور وہ آپس میں جھگڑنے لگے۔ کچھ کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ کے قریب
(لکھنے کا سامان) کردو،وہ تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دیں کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں
ہوگے اور کچھ حضرات نے وہی بات کہی جو سیدنا عمر ؓ کہہ چکے تھے۔ جب نبی ﷺ کے پاس شور
وغل اور اختلاف زیادہ ہوگیا تو آپ نےفرمایا: ”میرے پاس سے اٹھ جاؤ“ سیدناابن عباس
ؓ کہا کرتے تھے: سب سے بھاری مصیبت تو یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ اور اس نوشت لکھوانے
کے درمیان اختلاف اور جھگڑا حائل ہوا[vii]۔
یہاں پر بھی واضح الفاظ میں ہمیں حضرت عمر کی طرف سے یہ بات ملتی ہے
کہ قرآن موجود ہے اور کافی ہے
حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں کہ جب بی بی فاطمہ علیھما السلام نے میراث کی بات کی، تو پھر یہ رسول اللہ کے اقوال نقل کرنے لگے اور آج بھی جب آپ ان کے ماننے والوں کے سامنے آیات پیش کرو جیسا کہ (وورث سليمان داود ) تو یہ فوری طور پر کہتے ہیں کہ جی روایات میں تو یوں ہے، ایسا ہے، ویسا ہے
حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں کہ جب بی بی فاطمہ علیھما السلام نے میراث کی بات کی، تو پھر یہ رسول اللہ کے اقوال نقل کرنے لگے اور آج بھی جب آپ ان کے ماننے والوں کے سامنے آیات پیش کرو جیسا کہ (وورث سليمان داود ) تو یہ فوری طور پر کہتے ہیں کہ جی روایات میں تو یوں ہے، ایسا ہے، ویسا ہے
خیر
حضرت عبداللہ ابن عباس نے اسے سب سے بڑی مصیبت قرار دیا
روایت نمبر 7
مسند احمد میں یہ روایت نقل ہوئی
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ
، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ ” دَعَا عِنْدَ مَوْتِهِ بِصَحِيفَةٍ ، لِيَكْتُبَ فِيهَا كِتَابًا لَا يَضِلُّونَ
بَعْدَهُ ” ، قَالَ : فَخَالَفَ عَلَيْهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حَتَّى رَفَضَهَا .
حضرت جابر سے مروی ہے کہ نبی نے اپنی وفات سے
قبل ایک کاغذ منگوایا، تاکہ ایسی تحریر لکھوا دیں جس کی موجودگی میں لوگ گمراہ نہ
ہو سکیں، لیکن حضرت عمر نے اس میں دوسری رائے اختیار کی یہاں تک کہ نبی نے اسے
چھوڑ دیا۔ (مترجم مولوی ظفر اقبال)[viii]
اس سند کو شیخ حمزہ احمد زین نے اپنی تحقیق میں
حسن قرار دیا[ix]
مولوی ظفر اقبال نے ترجمے میں ڈنڈی ماری ہے۔
الفاظ ہیں
: فَخَالَفَ عَلَيْهَا
عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ
یعنی عمر نے اس
کی مخالفت کی
اور کوئی بھی ذی
شعور اس بات کی گواہی دے گا کہ حضرت عمر نے جو طرز عمل اپنایا، اختلاف اسی سبب بنا
اس لیے یہ کہنا
کہ مخالفت ان کے جانب سے تھی، غلط نہیں
روایت نمبر 8
اسی طرح کی ایک
روایت مسند ابی یعلی میں بھی مروی ہے
1869 - حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا
قُرَّةُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: "
دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَحِيفَةٍ عِنْدَ مَوْتِهِ يَكْتُبُ
فِيهَا كِتَابًا لِأُمَّتِهِ قَالَ: لَا يَضِلُّونَ وَلَا يُضَلُّونَ "، فَكَانَ
فِي الْبَيْتِ لَغَطٌ، فَتَكَلَّمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَرَفَضَهُ النَّبِيُّ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
[حكم حسين سليم أسد]
: رجاله رجال الصحيح
حضرت جابر سے
مروی ہے کہ رسول اللہ نے اپنے موت کے وقت ایک کاغذ مانگا تاکہ اس میں امت کے لیے
مکتوب لکھیں، اور کہا کہ پھر نہ وہ گمراہ ہوں گے اور نہ کریں گے۔ گھر میں ہنگامہ
مچ گیا، اور عمر بن خطاب اس میں بولنا شروع ہوئے، تو رسول اللہ نے اسے چھوڑ دیا[x]
شیخ حسین سلیم
اسد نے اس پر حکم لگایا کہ اس روایت کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں
اس روایت کو مجمع الزوائد، جلد 4، صفحہ 215 پر
ہیثمی نے بھی نقل کیا اور یہ حکم لگایا
وَرِجَالُ الْجَمِيعِ
رِجَالُ الصَّحِيحِ.
اور اس کے سارے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں
اب آپ بالکل واضح دیکھ سکتے ہیں کہ اس روایت میں بھی وہی بات ہے کہ
عمر بن خطاب کے بولنے کی وجہ سے رسول اللہ نے اسے ترک کیا
کیا علمائے اہل سنت اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ
عمر نے اس حکم کو منع کیا؟
نووی نے صحیح مسلم کی شرح میں لکھا
فقد اختلف العلماء في الكتاب الذي هم النبي صلى الله عليه وسلم
به فقيل أراد أن ينص على
الخلافة في إنسان معين لئلا يقع فيه نزاع وفتن وقيل أراد كتابا
يبين فيه مهمات الأحكام ملخصة ليرتفع النزاع فيها
علماء کا اس بات
میں اختلاف ہے کہ نبی پاک کیا لکھنا چاہتے تھے۔ کچھ نے کہا کہ ان کا ارادہ تھا کو
ایک معین انسان کے لیے خلافت کو منصوص کر دیں تاکہ نزاع و فتن نہ ہو۔ کچھ نے کہا
کہ ان کا ارادہ تھا کہ مشکل احکام واضح کر دیں تاکہ نزاع ختم ہو
مزید تحریر کرتے
ہیں
وأما كلام عمر رضي الله عنه فقد اتفق العلماء المتكلمون في شرح
الحديث على أنه من دلائل فقه عمر وفضائله ودقيق نظره لأنه خشي أن يكتب صلى الله عليه
وسلم أمورا ربما عجزوا عنها واستحقوا العقوبة عليها لأنها منصوصة لا مجال للاجتهاد
فيها
جہاں تک عمر کے
کلام کا تعلق ہے، اس پر علماء میں اتفاق ہے جنہوں نے اس حدیث کی شرح کی کہ یہ عمر
کی تفقہ، فضیلت اور دقیق نظر کی دلیل ہے کیونکہ وہ اس بات سے ڈر رہے تھے کہ آپ کچھ
ایسا نہ لکھ دیں کہ جس سے لوگ عاجز ہوں، اور سزا کے مستحق ہو جائیں کیونکہ پھر اس
پر نص موجود ہوتی اور اس میں اجتہاد ممکن نہ تھا[xi]
یعنی ایک بات تو یہ طے ہے کہ نووی اس بات کو
تسلیم کر رہے ہیں کہ عمر نے اس کی مخالفت کی
اس سے زیادہ عام الفاظ میں اس کا اقرار ابن حجر عسقلانی نے اپنی فتح الباری، جلد 8، صفحہ 134 پر ان الفاظ میں کیا
وَقَالَ النَّوَوِيُّ اتَّفَقَ قَوْلُ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّ قَوْلَ عُمَرَ حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ مِنْ قُوَّةِ فِقْهِهِ وَدَقِيقِ نَظَرِهِ لِأَنَّهُ خَشِيَ أَنْ يَكْتُبَ أُمُورًا رُبَّمَا عَجَزُوا عَنْهَا فَاسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ لِكَوْنِهَا مَنْصُوصَةً وَأَرَادَ أَنْ لَا يَنْسَدَّ بَابُ الِاجْتِهَادِ عَلَى الْعُلَمَاءِ وَفِي تَرْكِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِنْكَارَ عَلَى عُمَرَ إِشَارَةٌ إِلَى تَصْوِيبِهِ رَأْيَهُ
نووی نے کہا کہ علماء کا اتفاق ہے کہ عمر کا یہ قول کہ
(ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے)
یہ ان کے فہم کی قوت اور دقیق نظر کی دلیل ہے کیونکہ وہ ڈر رہے تھے کہ آپ ایسا کچھ لکھ دیں جس کو پورا کرنے سے لوگ عاجز ہوں، اور سزا کے مستحق بن جائیں کیونکہ پھر یہ نص ہوتی اور پر اجتہاد کا دروازہ بند ہو جاتا علماء پر؛ اور نبی اکرم نے پھر اس بات کو ترک کر دیا عمر کے انکار پر، جس اس بات کا اشارہ ہے کہ عمر کی رائے صحیح تھی
بالکل واضح الفاظ میں ابن حجر نے اس بات کو تسلیم کیا کہ عمر نے انکار کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ ان کے بقول نبی اکرم کا اس بات کو ترک کرنا عمر کے قول کو صحیح ثابت کر رہا ہے
حالانکہ آج کوئی بھی ذی شعور یہ بات تسلیم کرے گا کہ امت کی واضح اکثریت گمراہ ہے۔ کسی مولوی سے پوچھ لو کہ کل کتنے فرقے بننے ہیں اور کتنوں نے جنت میں جانا ہے؟ آپ خود پوچھ اور پھر اس سے آپ کو یقین آ جائے گا کہ آج امت میں گمراہی ہے
یہ تو ہر مولوی تسلیم کر رہا ہے
تو اگر ان میں دقت نظر و قوت فہم ہوتی تو کیا وہ اس کے لکھواتے یا نہیں؟
یہ کہنا کہ اگر لوگ اس پر عمل نہ کر سکے تو پھر گناہ ہو گا،
یہ تو انتہائی نا معقول عذر ہے۔ پھر تو عمر کو چاہیے تھا کہ کوئی بھی واجب یا حرام امر کو لکھنے نہ دیتا تاکہ لوگ سزا سے بچ جاتے
حقیقت تو یہ ہے کہ عمر نبی اکرم کی اس بات سے
لا تضلوا بعدی
یعنی میرے بعد گمراہ نہ ہو گے
سمجھ گئے تھے کہ آپ کی مراد کیا ہے۔۔۔۔۔
ہمیں اندازہ ہے کہ علمائے اہلسنت نے تو آج کوئی نہ کوئی تاویلیں گھڑنی ہیں، مگر ہم لوگوں کو یاد دلاتے چلیں کہ نبی اکرم اس سے پہلے بھی یہ بات کر چکے تھے
اس سے زیادہ عام الفاظ میں اس کا اقرار ابن حجر عسقلانی نے اپنی فتح الباری، جلد 8، صفحہ 134 پر ان الفاظ میں کیا
وَقَالَ النَّوَوِيُّ اتَّفَقَ قَوْلُ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّ قَوْلَ عُمَرَ حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ مِنْ قُوَّةِ فِقْهِهِ وَدَقِيقِ نَظَرِهِ لِأَنَّهُ خَشِيَ أَنْ يَكْتُبَ أُمُورًا رُبَّمَا عَجَزُوا عَنْهَا فَاسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ لِكَوْنِهَا مَنْصُوصَةً وَأَرَادَ أَنْ لَا يَنْسَدَّ بَابُ الِاجْتِهَادِ عَلَى الْعُلَمَاءِ وَفِي تَرْكِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِنْكَارَ عَلَى عُمَرَ إِشَارَةٌ إِلَى تَصْوِيبِهِ رَأْيَهُ
نووی نے کہا کہ علماء کا اتفاق ہے کہ عمر کا یہ قول کہ
(ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے)
یہ ان کے فہم کی قوت اور دقیق نظر کی دلیل ہے کیونکہ وہ ڈر رہے تھے کہ آپ ایسا کچھ لکھ دیں جس کو پورا کرنے سے لوگ عاجز ہوں، اور سزا کے مستحق بن جائیں کیونکہ پھر یہ نص ہوتی اور پر اجتہاد کا دروازہ بند ہو جاتا علماء پر؛ اور نبی اکرم نے پھر اس بات کو ترک کر دیا عمر کے انکار پر، جس اس بات کا اشارہ ہے کہ عمر کی رائے صحیح تھی
بالکل واضح الفاظ میں ابن حجر نے اس بات کو تسلیم کیا کہ عمر نے انکار کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ ان کے بقول نبی اکرم کا اس بات کو ترک کرنا عمر کے قول کو صحیح ثابت کر رہا ہے
حالانکہ آج کوئی بھی ذی شعور یہ بات تسلیم کرے گا کہ امت کی واضح اکثریت گمراہ ہے۔ کسی مولوی سے پوچھ لو کہ کل کتنے فرقے بننے ہیں اور کتنوں نے جنت میں جانا ہے؟ آپ خود پوچھ اور پھر اس سے آپ کو یقین آ جائے گا کہ آج امت میں گمراہی ہے
یہ تو ہر مولوی تسلیم کر رہا ہے
تو اگر ان میں دقت نظر و قوت فہم ہوتی تو کیا وہ اس کے لکھواتے یا نہیں؟
یہ کہنا کہ اگر لوگ اس پر عمل نہ کر سکے تو پھر گناہ ہو گا،
یہ تو انتہائی نا معقول عذر ہے۔ پھر تو عمر کو چاہیے تھا کہ کوئی بھی واجب یا حرام امر کو لکھنے نہ دیتا تاکہ لوگ سزا سے بچ جاتے
حقیقت تو یہ ہے کہ عمر نبی اکرم کی اس بات سے
لا تضلوا بعدی
یعنی میرے بعد گمراہ نہ ہو گے
سمجھ گئے تھے کہ آپ کی مراد کیا ہے۔۔۔۔۔
ہمیں اندازہ ہے کہ علمائے اہلسنت نے تو آج کوئی نہ کوئی تاویلیں گھڑنی ہیں، مگر ہم لوگوں کو یاد دلاتے چلیں کہ نبی اکرم اس سے پہلے بھی یہ بات کر چکے تھے
حَدَّثَنَا
يحي [3] قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ [4] عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ
أَبِي الضُّحَى عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا
كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وعترتي أهل بيتي وأنهما لن يتفرقا حتى يردا عليّ الحوض.
زید بن ارقم سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا:
میں تم میں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم نے ان سے تمسک رکھا تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے،
کتاب اللہ اور میری عترت اھل بیت، اور یہ ہر گز جدا نہ ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر
آ جائیں[xii]
اس روایت کی کو شیخ شعیب الارناؤط نے صحیح قرار
دیا۔ دیکھیے العواصم و القواصم، جلد 1، صفحہ 178
عن زيد بن أرقم، وعنه قال: قال - صلى الله عليه وسلم -:
" إني تارك فيكم الثقلين: كتاب الله وعترتي: أهل بيتي، وإنهما لن يتفرقا حتى يردا
عليَّ الحوض " رواه الحاكم 3/ 148 وصححه ووافقه الذهبي، والطبراني في " الكببر
" (4980) والفسوي في " المعرفة والتاريخ " 1/ 536، وهو صحيح
زید بن ارقم سے مروی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔حاکم نے اس کی
روایت کی، اور اسے صحیح کہا۔ الذھبی نے بھی ان کی موافقت کی۔ طبرانی نے الکبیر میں
اسے نقل کیا، اور فسوی نے المعرفۃ و التاریخ میں، اور وہ صحیح ہے
نیز
ترمذی نے اسے حضرت جابر کے حوالے سے نقل کیا
3786 - حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الكُوفِيُّ قَالَ:
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الحَسَنِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ
جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ القَصْوَاءِ يَخْطُبُ،
فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ
أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا: كِتَابَ اللَّهِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي
جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ کو
یوم عرفہ پر دیکھا کہ آپ قصواء اونٹنی پر سوال تھے، اور خطبہ دیا، اور ہم نے انہیں
کہتے سنا: اے لوگوں! میں تم میں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم نے انہیں تھام لیا تو
کبھی گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری عترت اھل بیت[xiii]
علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا۔
اس لیے یہ بات جو نبی اکرم نے کی کہ
لَا
تَضِلُّوا بَعْدِي
میرے بعد گمراہ نہ ہو گے
یہ کافی واضح بات تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتے تھے
بہر کیف
جو سمجھنا چاہیں، وہ سمجھیں
جو بہانے بنانا چاہیں، وہ بنائیں
اور جتنی مرضی بنایں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہزار بار کہیں
کہ یہ فلاں کی دقیق نظر ہے، تفقہ ہے وغیرہ وغیرہ
حق یہ ہے کہ اگر آج آپ کو اس امت میں گمراہی نظر
آ رہی ہے
تو اس کا آغاز آپ دیکھ سکتے ہیں
ابن عباس کسی وجہ سے روتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس
قدر روتے تھے کہ سنگریزے ان کے آنسوؤں سے تر ہو جاتے تھے۔
النھایہ فی غریب الحدیث، جلد 5، صفحہ 245
صحیح مسلم، جلد3، صفحہ 1257,
صحیح بخاری، جلد 9، صفحہ 111
مسند احمد، اردو ترجمہ، جلد 6، صفحہ 188
مسند احمد، جلد 11، صفحہ 526، تحقیق شیخ حمزہ
احمد زین
مسند ابی یعلی، جلد 3، صفحہ 393
شرح نووی علی مسلم، جلد 11، صفحہ 89
المعرفۃ و التاریخ، از فسوی، جلد 1، صفحہ 536
مکتبہ شاملہ
سنن ترمذی، جلد 5، صفحہ 662
No comments:
Post a Comment