السلام علیکم
آج کل مجھے کچھ حلقوں میں یہ محسوس ہوا کہ سادات کے بارے میں موجود روایات کو زیادہ موضوع سخن نہیں بنایا جاتا۔ اوراس موضوع پر ہمیں انٹر نیٹ پر کچھ خاص مواد بھی نہیں ملا، تو میں نے سوچا کہ اس پر ایک مختصر مقالہ لکھا جائے۔ اگر زیادہ تفصیل کے متلاشی ہوں،تو سید حسن ابطحی کی کتاب، انوار زہرا، کی طرف رجوع کریں
آج کل مجھے کچھ حلقوں میں یہ محسوس ہوا کہ سادات کے بارے میں موجود روایات کو زیادہ موضوع سخن نہیں بنایا جاتا۔ اوراس موضوع پر ہمیں انٹر نیٹ پر کچھ خاص مواد بھی نہیں ملا، تو میں نے سوچا کہ اس پر ایک مختصر مقالہ لکھا جائے۔ اگر زیادہ تفصیل کے متلاشی ہوں،تو سید حسن ابطحی کی کتاب، انوار زہرا، کی طرف رجوع کریں
موضوع کا آغاز ہم شیخ صدوق کے اس کلام سے کریں گے، جو انہوں نے اپنی کتاب الاعتقادات، صفحہ 111 پر کی ہے
قال الشيخ - رضي الله عنه -: اعتقادنا في العلوية أنهم آل رسول الله، وأن مودتهم واجبة، لأنها أجر النبوة. قال عز وجل: (قل لا أسئلكم عليه أجرا إلا المودة في القربى). والصدقة عليهم محرمة، لأنها أوساخ أيدي الناس وطهارة لهم، إلا صدقتهم لإمائهم وعبيدهم، وصدقة بعضهم على بعض. وأما الزكاة فإنها تحل لهم اليوم عوضا عن الخمس، لأنهم قد منعوا منه. واعتقادنا في المسئ منهم أن عليه ضعف العقاب، وفي المحسن منهم أن له ضعف الثواب. وبعضهم أكفاء بعض، لقول النبي صلى الله عليه وآله وسلم حين نظر إلى بنين وبنات علي وجعفر ابني (أبي) طالب: (بناتنا كبنينا، وبنونا كبناتنا).